بار بار کی تاکید کے باوجود میری بات کوئی نہیں سنتا تھا کہ ملک ایک غیر معمولی صورت حال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کوئی بتاتا کہ نواز شریف کو رک جانا چاہیے اور معاملات کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے کہ ملک کا نقصان ہو جائے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ وہ سب کچھ سہہ جائیں اور کوئی ایسی بات نہ کریں کہ ملک کا نقصان ہو۔ دوسرا بتاتا کہ بھئی آپ ایک پالیسی کے تحت اس شخص کو دیوار سے نہ لگائیں صرف اس لیے کہ ملکی معاملات پر آپ کی بالادستی برقرار ہے۔ کوئی نواز شریف کو کرپشن کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ‘ تو کوئی طالع آزمائوں کی کرم فرمائیوں کو ملک کے ہر مسئلے کی بنیاد بتاتا۔ آخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بات بہت آگے نکل گئی ہے۔ ہم سب جھوٹ بول رہے ہیں اور منافقت دکھا رہے ہیں۔ آج صبح ہی ایک دوست کہہ رہے تھے انہوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ رکھا ہے کہ اس سے خواہ مخواہ بلڈ پریشر تیز ہوتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہنگامی طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں متفقہ طور پر اس شخص کے خلاف قرار داد سخت ترین لفظوں میں پاس ہو جو اس پارٹی کا ’’سربراہ ‘‘ اور ’’غیر متنازعہ لیڈر‘‘ہو جو حکمران ہے۔ اس اجلاس کے چند ہی گھنٹوں بعد وزیر اعظم اس بیان کا دفاع کریں جس کے خلاف قرار داد پاس کرنے والے اجلاس کی وہ صدارت کر رہے ہیں۔ بات سادہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر فوجی اور سول حلقوں میں کھلا اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم نے طریقے سے اس بیان کا دفاع کر کے یہ بتا دیا ہے کہ سلامتی کے ایسے اداروں میں فیصلے کیسے ہوا کرتے ہیں۔ خدا کی قسم اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ جب پہلے روز ہی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کا یہ پریس ریلیز سامنے آیا تھا کہ ہم نے وزیر اعظم کو بتا دیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے تو اس کے لہجے سے یوں لگتا تھا کہ گویا یہ ہدایت کر دی گئی ہے یا حکم کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ اضافہ بھی تھا کہ اس گمراہ کن بیان سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا جائے گا جو ایک انٹرویو کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ گویا فیصلہ دے دیا گیا تھا کہ یہ بیان گمراہ کن ہے۔ میری رائے تھی کہ یہ پریس ریلیز اس لہجے میں نہ آتا تو اچھا تھا۔ پر چلیے آ گیا‘ اس سے اس غصے کا اندازہ ہوتا ہے جو بجا طور پر عسکری حلقوں میں پایا جاتا ہے۔ پھر بھی خواہش تھی کہ ان مواقع پر غصے کو ضبط کرنا ہی سب سے بڑا کمال ہوتاہے۔ بہرحال توقع تھی کہ جب سول اور ملٹری قیادت مل کر بیٹھے گی تو معاملہ سنبھل جائے گا۔ تاہم جب بیان اس لہجے میں آیا جس میں پریس ریلیز تھا تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ مجھے ڈر تھا کہ اس کے بعد بات مزید بگڑے گی۔ میں اس بات کی پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں کہ میں نواز شریف کے اس بیان کو اس موقع پر مناسب نہیں سمجھتا۔ تاہم یہ غیر متوقع بھی نہیں ہے۔ نواز شریف کئی دنوں سے انتباہ کر رہے تھے کہ سدھر جائیں۔ میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ پھر بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ اس بڑی لڑائی کا آغاز کر دیں گے یہ لڑائی اس ملک میں کس وقت ہونا تھی‘ مگر شاید ابھی یہ قبل از وقت تھی۔ نواز شریف تاہم یہ محسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے لیے اس لڑائی کا وقت آ چکا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کے جو حالات ہیں اور جو علاقائی اور عالمی نقشہ ہے‘ اس کے پیش نظر یہ گمان بھی تھا کہ سب طاقتیں اس بات کو سمجھیں گی۔ لڑائی کو ٹالنا اور اسے بغیر لڑے جیتنا سب سے بڑی حکمت عملی ہوا کرتی ہے افسوس ایسا نہیں ہوا۔ اوپر میں قومی سلامتی کمیٹی کے جس اجلاس کا ذکر کر رہا ہوں۔ اس نے ایک اور بات ثابت کر دی جب کبھی ایک ایسی آئینی کونسل بنانے کی بات کی جاتی جس میں ایسے معاملات پر حتمی فیصلے ہوں تو اس قسم کی باتیں ہوئیں کہ جب ایسے اجلاس میں اتنے سارے وردی پوش بیٹھے ہوں گے تو سویلین کی کیا مجال ہو گی کہ وہ اختلاف کر سکیں۔ لگتا ہے کہ اس اجلاس نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس اجلاس کی جو تصویریں جاری کی گئیں۔ ان میں زیادہ نمایاں دوریاں ہی تھیں۔ اس اجلاس کے بعد وزیر اعظم کی پریس بریفنگ کا ٹی وی پر نہ آنا خود ایک نیا سوال پیدا کر گیا۔ اس دوران نواز شریف نے جس طرح ڈان لیکس کا نام لیا‘ اس سے بھی اندازہ ہوتا کہ وہ فیصلہ بھی جبراً کرایا گیا۔ اس میں ذرا انحراف ہوا تھا تو ایک شہرہ آفاق ٹویٹ آ گئی تھی جس میں فوج کی طرف سے ان اقدامات کو مسترد کرنے کا اعلان تھا۔ یہ بڑی غیر معمولی صورت حال تھی۔ اب اس کا نشانہ بننے والے رائو تحسین کو بحال کر دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے پرویز رشید غلط نکالے گئے۔ نواز شریف کہتے ہیں میں نے اس وقت بھی یہ بات سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہی گئی تھی جسے ڈان لیکس بنا دیا گیا۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نواز شریف کے موجودہ بیان کے ساتھ نہیں ہوں۔ اس لیے اس کا دفاع نہیں کر رہا‘ حالانکہ ایک طرح سے کیا بھی جا سکتا ہے۔ میں تو صرف ان لوگوں سے درخواست کر رہا ہوں‘ ساری سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں سے کہ اس معاملے کو مزید آگے بڑھنے سے روکیں وگرنہ بڑی سخت خرابی ہو گی۔ اب یہ کہنا نواز شریف غدار ہیں‘ ہم پہلے ہی گرے لسٹ میں ہیں‘ اب بلیک لسٹ میں آ جائیں گے یا یہ کہ دنیا ہمیں کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی‘ اس لیے نواز شریف کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ ان سے گزارش ہے کہ انہیں بھی نواز شریف کو احتیاط سے ہینڈل‘ کرنا چاہیے تھا۔ یہ بات ڈنڈے کے زور نہیں ہوا کرتی۔ ساری قوتیں اس ایک شخص کے خلاف لگی ہوئی ہیں۔ وہ اتنا بھی برا نہیں ہے۔ اس کا نہ سرے پیلس ہے نہ سوئٹزر لینڈ میں اکائونٹ ہے۔ ایک استثنیٰ کی اوٹ لے کر آپ جرم سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ اس ملک میں اور بہت سی خرابیاں ہیں۔ بار بار عرض کیا تھا کہ احتساب یوں کیا جائے کہ احتساب نظر آئے‘ شفاف بھی ہو اور سب کے خلاف بھی۔ عدالتی فیصلوں سے لے کر اب تک یہی لگتا ہے کہ ایک شخص کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قانونی حلقوں کے ساتھ عوامی حلقوں کی اکثریت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ ادھر الیکشن کا ’’پراسس‘‘ شروع ہو گیا کون آئے گا یہ لوگ خود بخود ٹوٹ کر ایک ترتیب کے ساتھ جا رہے ہیں۔ لوگ یہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ لوگ جا نہیں رہے انہیں بھیجا جا رہا ہے۔ اس پورے پراسیس نے جو سینٹ کے انتخاب سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اس نے اس پورے عمل سے اعتبار چھین لیا ہے۔ لوگوں کا ہجوم اور سائنسی سروے کچھ اور بتاتے ہیں اور ہم تاریخ کا پہیہ مخالف سمت گھمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ کاش ہم نے خطرے کا اندازہ کر لیا ہوتا۔ دیکھئے ہم پاکستانیوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ ملک کیسے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس وقت کوئی چیز کام نہیں آتی۔ ہم اتنے شرمندہ ہیں کہ ہم نے اپنی درسی کتابوں سے اس واقعے کو بالکل نکال رکھا ہے۔ ادھر عوام کا یہ حال تھا کہ چند ہی برس بعد مشرقی پاکستان میں جا بجا ایسے واقعات ہوئے اور وہاں سے ایسی خبریں آئیں کہ دنیا کو یقین آ گیا کہ بنگلہ دیش کے لوگ آج بھی پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کو دہرانے کا فائدہ؟ پھر کیا ہوا کہ ہم نے وہاں محب وطن پاکستانیوں کو پھانسی پر لٹکتے دیکھا اور اس پر مصلحت آمیزی خاموشی اختیار کی۔ کہاں گئے ہمارے وہ سارے نامور ادارے جن کا ہم اتنا ڈنکا بجاتے ہیں‘ وہ اس موافق صورت حال کو اپنے ساتھ کیوں نہ رکھ سکے۔ ہم نے کیسے اسے وہاں پھلنے پھولنے اور پنپنے کا موقع دیا۔ہو سکتا ہے‘ ہم نے سوچا ہو گا ‘ ادھر جو ہوا سو ہوا‘ اب اس باقی ماندہ پاکستان کو بچائو۔ یہ ہم ملک کو بچا رہے ہیں اور اسے مضبوط کر رہے ہیں۔ سب سیاستدان مجرم ہیں اور وہ سب غیر سیاسی قوتیں بھی جن کے ذمہ ملک کی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے۔ ایک کہرام مچا ہوا ہے‘ کوئی انتشار سا انتشار ہے۔ ہم اسے شطرنج کی بازی سمجھ کر کھیلے جا رہے ہیں۔ میری جان‘ قوموں کی زندگیاں شطرنج کا کھیل نہیں ہوتیں۔ ؎ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے غالب نے انہی حالات سے تنگ آ کر یہ بات کہی تھی۔ وہ غدرکا زمانہ تھا۔ اب بھی لگتا غدر مچا ہوا ہے اور ہم اسے جنگ آزادی سمجھ رہے ہیں۔ خدا کے لیے غور کیجیے ہم ایک اور جنگ ہارنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جسے ہم اپنے تئیں جنگ آزادی سمجھ کر لڑ رہے ہیں اور ہیرو بنے پھرتے ہیں‘ کہیں مورخ اسے ’’غدر‘‘ نہ لکھے۔ خدا کے لیے غور کیجیے!