معاشی ماہرین کا تخمینہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی نصف آبادی غربت کا شکار ہے اور تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ افراد روزگار سے محروم ہیں۔گزشتہ دو برسوں میں معاشی ترقی کی شرح سست پڑنے کی وجہ سے پچپن لاکھ افراد بے روزگار تھے لیکن پچھلے چار مہینوں سے کورونا وبا نے معاشی بحران کو مزید گھمبیربنادیا۔ اس کے نتیجہ میں صنعتی پیداوار میں کمی ہوئی‘ تجارت اور ٹرانسپورٹ کو مزید نقصان پہنچا تو بیروزگار افراد کی تعدا بھی دوگنا ہوگئی۔ظاہر ہے جب آمدن ختم ہوجائے یابہت کم رہ جائے تو غربت بھی بڑھتی ہے۔ کورونا ایک قدرتی آفت ہے جس نے بڑے بڑے ملکوں کی معیشت درہم برہم کردی‘ پاکستان کی معیشت تو پہلے ہی نحیف و نزار تھی‘ مزید کمزور ہوگئی۔ان سخت معاشی حالات میںوفاقی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عوام کی مشکلات کو کم کرنے کی خاطرچند ٹھوس اقدامات کیے۔ حکومت نے سوا کروڑ خاندانوں میں احساس کیش پروگرام کے تحت رقم بانٹی جس سے غریب لوگوں کو کچھ سہارا مل گیا۔اچھا ہوگا کہ حکومت اگلے دو تین ماہ تک اس امدادی رقوم کی ایک اور قسط مستحق لوگوں میں تقسیم کردے۔ اگر اس پروگرام کا دائرہ وبا کے باعث سوا کروڑ خاندانوں سے بڑھا کر ڈیڑھ کروڑ خاندانوں تک وسیع کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ خاص طور سے بلوچستان اور سندھ کے دُور دراز علاقوں میں غریب افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان تک امداد پہنچانابہت ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت کی ساخت ایسی ہے کہ یہ ہر چند سال بعد بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔یہ پرچون دکانداری کی معیشت ہے۔ اسکی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے۔ زراعت ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت پسماندہ ہے ۔حتی کہ بھارت کے مقابلہ میں بھی پیداوارکئی گنا کم ہے۔صنعتی شعبہ بہت چھوٹا ہے اور اسکا زیادہ ترانحصار ٹیکسٹائل پر ہے۔ہماری معیشت کا سب سے بڑا شعبہ خدمات پر مبنی ہے یعنی تجارت‘ ٹرانسپورٹ‘ تعلیمی ادارے ‘ ہسپتال وغیرہ۔ ہم دنیا کو بیچتے کم اور اس سے خریدتے زیادہ ہیں۔ اگر حکومت درآمد کی کھلی چھٹی دیے رکھے تو تجارت پھلتی پھولتی ہے ‘ معاشی ترقی کا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ملک زر مبادلہ کے بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ زرمبادلہ کے مسلسل خسارہ کا مطلب ہے روپے کی قدر میں کمی اور عالمی اداروں سے قرضے۔ نواز شریف دور میں حکومت کی پالیسی تھی کہ تجارتی خسارہ کی پرواہ نہ کرو ‘ اسلیے تجارت کو فروغ ملا‘ جی ڈی پی کی شرح پانچ فیصد سے بڑھ گئی۔ زرمبادلہ کے بحران سے نپٹنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایم ایف سے بھی قرض لیا اور ملک کے اثاثے جیسے موٹرویز‘ ائیر پورٹس‘ سرکاری عمارتیں گروی رکھے۔ یہ کام زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا تھا۔ یہ ٹھوس معاشی ترقی نہیں تھی بلکہ ایک بلبلہ تھا جو بالآخر پھٹ گیا۔ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ انہیں اقتدار ایسے وقت ملا جب گزشتہ دس برسوں کی معاشی بدانتظامی کے نتائج سامنے آنے لگے تھے۔ جب تک پاکستان کی معیشت کے ساخت میں بنیادی تبدیلی نہیں آئیگی ہم معاشی بحران سے نہیں نکلیں گے‘ غربت اورشدید بیروزگاری سے ہماری جان نہیں چھوٹے گی۔ ہمیں خدمات کے شعبہ کی بجائے زراعت اور صنعت کے شعبوں کا حجم بڑھانا ہوگا۔ پرچون دکانداری پر انحصار کرنیوالی معیشت مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اب ایک اچھا کام تو یہ ہورہا ہے کہ حکومت چین کے اشتراک سے چلنے والے سرمایہ کاری کے پروگرام سی پیک کے تحت صنعتی شعبہ کو توسیع دینے پر توجہ دے رہی ہے۔ حال ہی میں سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین عاصم سلیم باجوہ نے اعلان کیا ہے کہ اس پروگرام کے تحت رشکئی اور دھابیجی (کراچی) میں صنعتی زون کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے گی۔اگر حکومت یہ کام بروقت کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اگلے چار پانچ برسوں میں معیشت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے لگے گی۔ یہ وہ کام ہے جو ہماری ریاست کو بہت پہلے شروع کردیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم دیر آید ‘ درست آید۔ صنعتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ بجلی کا شعبہ ہے۔ بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں(آئی پی پیز) سے جو معاہدے سابقہ حکومتوں نے کیے انکے تحت بجلی بہت مہنگی ہوگئی ۔ اس کے باعث ہمارے ہاں صنعتی مال بنانے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ یہ آئی پی پیز ہر برس اپنے اصل حق سے بڑھ کر تقریبا ًتین سو ارب روپے صارفین سے لوٹ رہی ہیں۔ اسی طرح زراعت کے شعبہ میںترقی کی رفتار بڑھانے کی غرض سے غیر روایتی طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ہم خود کو زرعی ملک کہتے ہیں لیکن مالی سال 2019-20 میں پاکستان نے تقریبا ساڑھے چار ارب ڈالرکی زرعی اشیا درآمد کیں جبکہ پونے چار ارب ڈالر کی چیزیں برآمد کیں۔ یعنی زرعی چیزوں میںہمیں تقریباً پچھتر کروڑڈالرکا تجارتی خسارہ ہوا۔ حکومت نے زرعی شعبہ کی ترقی کو بہتر بنانے کی خاطر پچاس ارب روپے کے ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ یہ بہت کم رقم ہے۔ اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس پیکج کا دائرہ کار بھی وسیع کرنا چاہیے۔ موجودہ پروگرام میںمال مویشی‘ گوشت پراسیسنگ اور مچھلی کے شعبے شامل نہیں ہیں۔ بیوروکریسی اور ٹیکنو کریٹس کے فر سودہ‘ روایتی نسخوں سے ہم کبھی بڑی معاشی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ ایک سیاسی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ و ہ نئے‘ دلیرانہ اقدامات کرے ۔ پاکستان میں دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کی بہت گنجائش ہے ۔ ہمارے پاس جانوروں کاچارہ بھی ہے ‘تجر بہ کار محنت کش بھی۔ دیہات کے لوگوں کے پاس صرف وسائل کی کمی ہے۔ حکومت اچھی نسل کے گائیں‘ بھینسیں درآمد کرکے لاکھوں کی تعداد میں کسانوں میں بلا سود قرض کی صورت میں تقسیم کرے تو ان لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا‘ زرعی شعبہ ترقی کرے گا‘ بے روزگاری بھی دور ہوگی۔زرعی شعبہ کوبنکوں کی طرف سے دیا جانے والا زیادہ تر قرض بڑے زمیندار ہڑپ کرجاتے ہیں۔ حکومت کو احساس کیش پروگرام کی طرز پر لاکھوں چھوٹے کسانوں کو بڑے پیمانے پر بلا سود قرضے دینے کا پروگرام ہنگامی طور پر شروع کرنا چاہیے۔