15ہزار روپے ماہوار تنخواہ لینے والے فیکٹری کے ایک غریب چوکیدار کے بیٹے نے امتحان میں خوشحال اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں طالب علموں کو شکست دے کر خود پہلی پوزیشن کا تاج سر پہ سجا لیا ہے۔ دوسری پوزیشن بھی گاڑیاں مرمت کرنے والے موٹر مکینک کی بیٹی نے حاصل کر لی اور تیسری پوزیشن ایک ایسی طالبہ نے اپنے نام کی جو یتیم ہے۔ اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ کل بی اے اور بی ایس سی کے نتائج کا اعلان ہوا تینوں پہلی پوزیشنیں غریب گھروں کے بچوں نے لے لیں۔ یہ خبریں چونکا دینے والی بھی ہیں اور امید افزا بھی کہ غربت کے گہوارے میں کیسے کیسے لعل و گہر جنم لے رہے ہیں۔ ان بچوں کے عزم‘ مستقل مزاجی اور مسلسل محنت کے جذبے کو ہمارا سلام۔ محنت اور عزم مصمم رکھنے والے نوجوان اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ یہ روشن ستارے اپنے ہم وطنوں کو بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ مقصد کو پانے کے لیے راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کر جائیں۔ اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھیں۔ اپنے حالات کے اندھیروں کو اپنی کوشش سے روشنی میں بدل ڈالیں۔ سرکار کی جانب سے ان ذہین اور محنتی بچوں کی بھر پور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے غریب گھرانوں کے ان بچوں کا حق ہے کہ وہ ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں اور سرکار ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے۔ گزشتہ حکومت میں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ ایسے قابل طالب علموں کی ہمیشہ بھر پور حوصلہ افزائی کی۔ وظائف دیے بیرون ملک سیریں کروائیں وزیر اعلیٰ ہائوس میں انہیں والدین کے ہمراہ ضیافت پر بلایا۔ یہ سب اقدامات یقینا ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے! ہر برس جب رزلٹ آتا ہے تو اس قسم کی حیرتیں ساتھ بھرتا ہے کہ کم وسیلہ معاش اور پسے ہوئے طبقے کے طالب علم ان طالب علموں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جو خوشحال اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسال پیشتر ایسا ہی ایک نوجوان تھا جس نے بی اے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی وہ حافظ آباد سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے والد کے ساتھ تندرو پر روٹیاں لگاتا تھا آفرین ہے کہ غربت اور اس پر ستم ہائے روزگار بھی اس کو اپنی تعلیم پر توجہ دینے سے نہ روک سکے۔ ہزاروں طالب علموں میں جب اس ’’تندورچی ‘‘ کی پہلی پوزیشن آئی تو اس کا باپ بھی حیران تھا ایک انٹرویو میں کہنے لگا ہم اس قدر غریب ہیں کہ پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ مگر میرے بیٹے کو پڑھائی کا شوق تھا۔ میں کہتا تھا کہ کام پر توجہ دو۔ ایک بار تو غصے میں میں نے اپنے بیٹے کی کتابیں اٹھا کر جلتے تندور میں پھینک دیں مگر میرا لڑکا پھر بھی باز نہ آیا۔ سارا دن تو میرے ساتھ روٹیاں لگاتا اور ساری رات بیٹھ کرکتابیں پڑھتا رہتا‘‘ قارئین!اس سے بڑھ کر بھی کوئی انسپریشنل سٹوری ہوگی۔ اس طالب علم کی کہانی اور ایسے تمام طالب علموں کی کامیابی کی کہانیاں جنہوں نے غربت کے جبر مسلسل میں بھی عزم کے چراغ جلائے رکھے۔ اپنے غربت زدہ مکانوں کے خستہ درو دیوار کے سائے میں بیٹھ ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھے! حالات کا جبر انہیں شکست نہیں دے سکا اور بالآخر انہوں نے اپنی غیر معمولی محنت سے اپنے مقصد کے ایک سنگ میل کو پا لیا۔ ان کے مقابلے میں وہ نوجوان جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کی زندگی کے شب و روز دیکھیں۔ ہاتھوں میں مہنگے سمارٹ فون کانوں میں ہیڈ فون لگائے ہوئے۔ نگاہیں مسلسل سمارٹ فون کی سکرین پر جمی ہوئیں۔ کبھی ویڈیو گیمز پر انگلیاں چل رہی ہیں‘ کبھی کسی مووی کی تصوراتی فضا میں گم ہیں۔ کبھی وٹس ایپ سنیپ چیٹ اور فیس بک کی مصنوعی دنیا سے دل بہلاتے ہوئے۔ کبھی سلفیاں لیتے اور اسے اپ ڈیٹ کرتے ہوئے۔ دن کو کالج اور شام کو اکیڈمیوں میں وقت گزاری کی پڑھائی! بس دوستوں کے ساتھ ہلا گلا‘ مہنگی فوڈ چینز سے برگر‘ پیزا اور کافی کا شوق پورا کرتے ہوئے۔ اپنے والدین کے پیسے دولت کی نمائش میں اڑاتے زندگی میں Funکرنا اور chillکرنا ہی جن کا مقصد حیات ہے۔ اس امتحان میں یقینا بہت سے طالب علم محض پاس ہونے کے بعد سوچ رہے ہوں گے کہ چوکیدار کے بیٹے اور موٹر مکینک کی بیٹی نے آخر کون سا گر لڑایا کہ آج سب کو پچھاڑ کر وننگ لائن پر کھڑے ہیں۔ ان غریبوں کو تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سفارش اور رشوت سے یہ کامیابی حاصل کی۔ یہ غریب اور محنتی طالب علم میرے اور آپ کے لیے بھی ایک مثبت تحریک کا ذریعہ ہیں۔ ان کی کامیابی اور ان کی شاندار جیت سے ہم کیا حاصل کر سکتے ہیں آئیے دیکھتے ہیں! 1۔اگر ہم چاہیں تو زندگی میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مسلسل محنت اور مستقل مزاجی اس کی کنجی ہے اس سے قطع نظر کہ ہمارے معاشی حالات کیا ہیں‘ ہم خستہ حال‘ چھوٹے مکان میں رہتے ہیں‘ جو بنیادی سہولتوں سے آراستہ نہیں ہے‘ ہماری جیب میں برانڈڈ برگر کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ بلکہ تین وقت پیٹ بھر کر روٹی کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ لیکن اگر ارادہ کر لیا ہے حالات کو بدلنے کا تو پھر ہم دنیا فتح کر سکتے ہیں۔ 2۔ مقصد کے حصول کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں بار بار سپیڈ بریکر سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو لڑ کھڑا کر گر بھی پڑتے ہیں لیکن مستقل مزاج لوگ جو مقصد پر نگاہیں جمائے ہوئے ہوں وہ ان رکاوٹوں اور سپیڈ بریکروں سے گھبراتے نہیں۔ گر گر کر اٹھتے ہیں کام میں لگے رہتے ہیں۔ ایک دن ضرور اپنے حالات بدلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ 3۔ بدترین حالات مثلاً غربت‘ بیماری‘ ناکامیوں کے باوجود بھی کامیابی حاصل کرنے والے لوگ ہمیشہ فوکسڈ (Focused) ہوتے ہیں۔ اپنے کام اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کا مسلسل ارتکاز بالآخر ان کو حیران کن کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کی روشن مثالیں ان غریب مگر قابل طالب علموں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ 4۔ ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ ہمیشہ مثبت توانائی سے بھرے ہوتے ہیں۔ حالات خواہ کچھ بھی ہوں ان کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ بروس لی کا ایک کہا ہوا قول یاد آ رہا ہے۔ معذرت کہ انگریزی میں تحریر کر رہی ہوں۔ ترجمہ اس کے اصل ذائقے کو خراب کر دے گا۔ To hell with circumstances; I will create opportunities. اور اب آخری بات یہ کہ ناکام لوگ اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جبکہ کامیاب لوگ اپنے مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں اور پھر اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عمل کے کار زار میں اتر جاتے ہیں۔