پتن ترقیاتی تنظیم کے سربراہ سرور باری سے میری کچھ عرصے کی شناسائی ہے۔ مزدوروں اور سیلاب زدگان کے حق میں بات کرتے ہیں۔ حالات حاضرہ کے ریڈیوپروگرام 'میڈیا ہَٹ' میں انہیں اکثر دعوت دیتا تو وہ بلاتردد تشریف لاتے اوران سے بنیادی حقوق کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے پہلے باب پر عمل نہیں ہوا کہ بنیادی انسانی حقوق کو غصب کرنے والی ہی اسمبلی میں براجمان تھے۔ آئین کی صرف انہیں شقوں کی پورے شدومد سے پزیرائی مل رہی تھی جن کا فائدہ اشرافیہ کو ہو رہا تھا۔ مطلب، پارلیمانی انتخابات تو جمہوریت کے نام پر ہو رہے تھے لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات کی کسی کو رتی بھر پرواہ نہیں تھی۔ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تاہم ان کی پہچان آزادانہ اور شفاف انتخابات کی نگرانی کے لیے نمائندہ سول سوسائٹی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والا ادارہ فافن ہے۔ اس ادارے کی بنیادوں کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا اور متعدد بار اس کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے مگر ان سے بات کبھی نہ ہوئی۔ جمعہ کی شب ان کا فون آیا کہ کل وہ پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں اور مجھے وہاں پہنچنا ہے۔ موضوع پوچھا تو انہوں نے کہا الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس حوالے سے بل پاس ہوچکا ہے اور اپوزیشن نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ ان بری مشینوں کے ساتھ منعقدکیے گئے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کریں گی۔ رپورٹنگ نہ تو میرے فرائضِ منصبی میں شامل ہے اور نہ ہی مجھے فوری خبر میں کوئی دلچسپی، لیکن مجھے امید تھی کہ وہاں میرے لیے 'محسوس' کرنے کو بہت کچھ ہوگا۔ خیر اگلے دن بھاگم بھاگ پہنچا تو پریس کانفرنس اپنے 'جوبن' پر تھی۔ پچھلی نشتوں تک پہنچتے پہنچتے میرے کانوں میں یہ الفاظ پڑ چکے تھے کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ ہوا تھا۔ ابھی میں نشت پر بیٹھا ہی تھا کہ سرور باری نے انکشاف کیا کہ اس دھاندلی سے فافن نے چشم پوشی کی تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ واقعی میں اپنی نشت سے اچھلا تھا یا صرف پہلو بدلنے پر اکتفا کیا تھا۔ میری نظروں میں ڈی چوک پر ہونی والی تقریریں، پیغام رسانی کے لیے اڑان بھرتے کبوتر، کیمروں سے لیس ڈرون، پارلیمان کی چار دیواری پر لٹکی شلواریں اور اندر ن لیگ کا پیپلز پارٹی کے کندھوں پر رکھا سر گھوم گیا۔ تحریک انصاف نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا شروع کیا تھا اور اس کے بعد اپنے ’پلان سی‘ کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے ۔عمران خان نے اس ضمن میں 18 دسمبر کو ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی تھی تاہم پشاور میں شدت پسندی کے واقعے کے بعد تحریک انصاف نے ملک گیر احتجاج کی کال واپس لے لی تھی۔ یہی نہیں بلکہ چینی صدر کا دورہ بھی منسوخ ہوا تھا جو سی پیک کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں کلیدی گنا جارہا تھا۔ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر تحریک انصاف کا احتجاج آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے پرجا کر کہیں ختم ہوا تھا۔ اگر منصفانہ انتخابات کے حوالے سے اپنے کردار پر فافن سمجھوتہ نہ کرتی تو ملک بڑے بحرانوں سے بچ سکتا تھا۔ لیکن اگلے لمحے مجھ پر گویا حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب سرور باری نے فافن کی بے چارگی کا پردہ چاک کیا کہ اس کے پاس نہ تو اپنی عمارت ہے اور نہ ہی یہ اپنے مالیاتی معاملات میں آزاد۔ یعنی جس ادارے کی انتخابات کے بارے میں رائے پر نہ صرف مقامی میڈیا انحصار کرتا ہے بلکہ بیرونی مبصر بھی ، اس کی اپنی حیثیت ہی مشکوک تھی کہ کب اس کے سپانسر اس کا بازو مروڑ دیں اور اپنی مرضی کے فیصلے کرالیں۔ یوں ووٹوں کی چوری کا کْھرا سرور باری نے فافن کے مربی ٹرسٹ کی طرف جا نکالا جو کہ نہ صرف اس کے جملہ اخراجات برداشت کرتا ہے بلکہ اپنی عمارت میں بھی اسے مہمان ٹھہرایا ہوا ہے۔ سرور باری کا کہنا تھا کہ فافن کے نوٹس میں آیا کہ متعدد حلقوں کے فارم نمبر چودہ میں جعلسازی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ فافن کی رپورٹس میں مبینہ ہیرا پھیری پکڑی گئی جس کی وجہ سے کچھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین اور محققین نے استعفیٰ دیا ، جبکہ کچھ کو خاموش رہنے کے لیے رشوت دی گئی۔ انہوں نے ٹی ڈی ای اے پر الزام لگایا کہ اس نے بورڈ کی منظوری کے بغیر ای سی پی ملازمین اور خاندان کے افراد کے سفر اور رہائش پر فنڈز خرچ کیے جو ان کے نزدیک گناہ ہے ۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ انتخابات سے پہلے نہ صرف فافن کو مالی اور انتظامی طور پر ایک خود مختار بنائیں گے بلکہ یہ ادارہ اس امر پر بھی توجہ دے گا کہ ووٹر نے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ووٹ ڈالا ہے یا پھر دھونس اور دھمکیوں پر۔ کالم لکھنے سے پہلے میں نے فافن کی ویب سائٹ وزٹ کی اور اس کے ملکی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی فہرست دیکھی۔ حال ہی میں جاری کی گئی پریس ریلیز دیکھی تو ادارے کے ترجمان رشید چوہدری سے سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ فافن کے ایگزیکٹو بورڈ نے اتفاقِ رائے سے پتن کی رکنیت کی ختم کردی ہے کیونکہ اس کے سربراہ نے محض غلط فہمیوں کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرکے ادارے کی ساکھ اوروقار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میں ان کا موقف بھی سنتا رہا اور سوچتا بھی رہا کہ کاش غلط فہمی ہی ہو۔