پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں آج مجھے انہی زندہ لوگوں کی بات کرنا ہے جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں اور مایوس اور لاچار لوگوں کی زندگی کی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ مجھے ایک آدھ روز میں حج کے لئے روانہ ہونا ہے۔ ظاہر اس کے لئے تیاری بھی ایسے ہی ہے جیسے امتحان کے آخری دنوں میں کی جاتی ہے۔ عزیز دوست نواز کھرل کااصرار کہ میں عالمی فلاحی اور رفاہی تنظیم المصطفیٰ کی ایک تقریب میں شرکت کروں کہ اس میں کالم نگار ‘صحافی‘ شاعر اور دانشور آ رہے ہیں۔ معروف شاعر فرخ محمود کا بھی شکریہ کہ ہمراہ لے گئے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہم ٹھہرے شاعر کہ لفظوں سے پھول کھلاتے ہیں‘ تتلیاں اڑاتے ہیں‘ خوشبو کو بیدار کرتے ہیں اور ایک منظر اٹھا دیتے ہیں مہر تو یہ کہہ دیتا ہے ’’سارے عالم پہ ہوںمیں چھایا ہوا، مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ اور غالب ہو تو دو قدم آگے بڑھتا ہے کہ ’’گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے۔ جو لفظ کے غالب مرے اشعار میں آوے‘‘۔ مگر بات یہ ہے کہ جو اقبال کہہ گئے ہیں’’گفتار کا یہ غازی بنا، کردار کا غازی بن سکا‘‘۔ بات تو اصل میں عمل کی ہے کہ اپنی فکر‘ سوچ اور سخن کو کارعمل میں ڈھال دیا جائے اوریہ بہت مشکل کام ہے۔ اس میں سب سے پہلے خود کو منہا کرنا پڑتا ہے‘ دوسروں کے لئے جینا پڑتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو عبدالستار ایدھی کہلاتے ہیں‘ تو ان کا نام خیر کے کام میں ڈھلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہ ڈاکٹر امجد ثاقب سے لے کر الحاج محمد حنیف تک کوئی بھی شخصیت ہو‘ اخوت اور المصطفٰی میں ڈھلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ المصطفیٰ تو نام ہی ایسا ہے جو دلوں کو چھیڑتا ہے کہ نبی پاکﷺ کہ مصطفی و مجتبیٰ ٹھہرے اور آپؐ آئے ہیں رحمت للعالمین بن کر۔ کل عالم کی خیر آپؐ سے وابستہ ہے اور جس جس کو آپؐ سے علاقہ ہے وہ کامیاب و کامران ہے۔ یہ رفاعی اور فلاحی تنظیم 22ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس کا مشن ہے’’غربت کے اندھیروں اور محرومی و مفلسی کے سائے تلے کٹھن زندگی گزارنے والے مفلوک الحال خاک نشینوں کی بلا امتیاز و نسل و مذہب بے لوث خدمت کرنا‘‘ یعنی فلاح انسانیت۔ اس مختصر تقریب کی نظامت نواز کھرل کر رہے تھے نظامت بھی تو ایک فن ہے اور یہ فن تو کوئی نواز کھرل سے سیکھے کہ اک پھول کا مضمون ہو تو سورنگ سے باندھوں‘‘ انہوں نے مجھے یہ منصب سونپا کہ گفتگو کہ سمیٹ دوں یا سمیٹ لوں اتنے ادیبوں اور دانشوروں کی پرمغز باتوں کو میں نے کیا سمیٹنا تھا۔ سب ہی اپنی جگہ المصطفی برطانیہ کے صدر عبدالرزاق کے لئے رطب اللسان تھے کہ وہی اس وقت مہمان خاص تھے۔ میں نے ڈاکٹر ہارون الرشید کا حوالہ دیا جو فائونٹین ہائوس کے لئے شب و روز محنت کر رہے تھے اور ہسپتال میں مریضوں کو منگل کے روز مفت دیکھتے تھے‘ ایک روز مجھے کہنے لگے’’شاہ صاحب!اب میں اپنے آپ سے نکل آیا ہوں‘ اب میں خلق خدا کے لئے کام کروں گا اور بس‘ میں نے ہنستے ہوئے انہیں کہا کہ آپ کی اس بات کو شعر میں ڈھال دیتے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیسے؟ میں نے شعر پڑھا: سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا کہنے کا مقصد یہ کہ جب انسان خیر کے کام کی اہمیت کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ڈاکٹر عمر رشید بھی کہا کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک نشہ ہے اور ایک ذائقہ ہے جو اس سے آشنا ہو گیا وہ باقی سب کچھ بھول گیا۔ خواجہ جمشید امام نے مجھ سے پہلے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہی اچھی بات کہی کہ کنویں میں گرے آدمی کی دو طرح سے مدد ہو سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے وہاں خوراک مہیا کر دی جائے اور اس کے زندہ رہنے کی سبیل ہو جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رسہ پھینک کر اسے باہر لایا جائے اور وہ زندگی دوبارہ سے آغاز کرے۔ یہ بات اچھی تھی کہ مدد کرنا بھی ایک سلیقہ اور حکمت ہے۔ کسی کو پیرا سائیٹ یعنی طفیلی نہ بنا دیا جائے۔ اخوت بھی تو غریب لوگوں کو قرضہ حسنہ دے کر کاروبار کی ترغیب دیتی ہے۔ بھکاری پیدا نہ کریں بلکہ بے روزگاروں کو روزگار پر لگائیں‘ کوئی ہنر یا کوئی ایسا کام جو عزت نفس بحال رکھے۔ بہرحال ضرورت مندوں کی فوری ضرورت پورا کرنا بھی تو ایک کام ہے خاص طور پر آفت زدہ لوگوں کی۔ اس حوالے سے المصطفیٰ تنظیم ہمارے لئے کوئی نیا نام نہیںکہ ان کی نیک نامی کا تذکرہ ہم پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک زبردست تنظیم ہمارے دوست سید لخت حسنین شاہ صاحب کی مسلم ہینڈز muslim handsبھی ہے۔ اصل بات تو نیک نیتی اور اللہ کی رضا کے حصول کی ہے۔ عبدالرزاق ساجد نے بتایا کہ اس تنظیم کا آغاز 1983ء میں کراچی سے ہوا۔ تاہم برطانیہ میں 2006ء میں اس نے کام کرنا شروع کیا۔ اس تنظیم کے تحت کئی پروگرام اور مہمات وجود میں آئیں۔ اس تنظیم میں ایک پروگرام حسن علی الفلاح شروع کیا۔ ظاہر اس کی بنیادی فلاسفی وہی ہے جو ہم اذان میں میں پانچ مرتبہ سنتے ہیں اور ہر اذان میں باردگر کہ فلاح کی طرف آئو۔ اس میں کیا شک کہ نماز کے لئے آنا فلاح ہی تو ہے۔ یہاں اس کے عمومی معنی جو خاص بھی ہیں مراد ہے کہ انسانوں کی اسی بنیاد پر فلاح کا کام کیا جائے۔ یہ خدمت کے سوا کیا ہو سکتا ہے اور خدمت ہی سے خدا ملتا ہے وہی جو خواجہ میر دردنے کہا: درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں حی الفلاح ایک پکار بن گئی ہے جو حقوق العباد کے لئے دنیا بھر کے انسانوں کو بلاتی ہے۔ ایک پروگرام ’’روشنی سب کے لئے ‘‘شروع کیا گیا جس میں ہزاروں لوگوں کا مفت علاج کیا گیا۔ ہمیں ڈاکٹر انتظار بٹ یاد آئے۔ کیا درویش ڈاکٹر ہے انکسار کا مجسمہ ،کتنے ہی ملکوںمیں غریب لوگوں کی آنکھوں کو اس نے منور کیا ہے۔ میری طرح عامر خاکوانی بھی اس کے لئے بہت کچھ تعریف میں کہتے رہتے ہیں۔ بہرحال یہ لوگ عظیم ہیں۔ المصطفیٰ نے زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کے لئے بھی بہت کام کیا ہے۔ وہ پسماندہ علاقوں 600حفاظ بھی تیار کر چکے ہیں۔ یتیموں کی کفالت میں بھی وہ پیچھے نہیں اس حوالے سے الخدمت اور غزالی ٹرسٹ نے بہت کام کیا ہے۔ المصطفیٰ کے اولڈ ہومز بھی ہیں۔ اجتماعی شادیوں کے لئے بھی وہ اپنے وسائل کام میں لاتے ہیں۔ ظاہر اس کے لئے بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ میڈیکل سنٹر اور مظفر آباد کمپلیکس وغیرہ سب ان کے کارنامے ہیں۔ ایک کالم میں بندہ کیا کچھ لکھ سکتا ہے۔ نواز کھرل نے سب کا شکریہ ادا کیا مگر درخت لگانے کی رسم ہم نے ہائی ٹی سے پہلے ادا کی یعنی عمران خاں کے پانچ ارب درختوں میں سے ایک تو ہم سب نے مل کر لگایا۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی تو چائے پر آئے۔ آئو ہم بھی المصطفیٰ کی آواز میں آواز ملائیں جو کہتے ہیں’’آئو خوشیوں سے محروم انسانوں میں خوشیاں تقسیم کریں‘ آئو مل جل کر غمزدہ انسانوں کے غم بانٹیں‘ آئو ذلت اور اذیت سے بھری زندگی گزارنے والوں کے دکھ درد کم کریں۔ آئو زمین والوں پر مہربانی کریں، خدا عرش بریں پر ہم پر مہرباں ہو۔ آخر میںعدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر