سابق افغان صدر اشرف غنی ایک بین الاقوامی سطح کے ماہر تصور ہوتے ہیں۔ اشرف غنی بنیادی طور پر معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کی سپیشلائزیشن یہ ہے کہ ناکامی کی طرف گرنے والی ریاستوں کو واپس قدموں پر کھڑا کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں کے لیے وہ اپنی مہنگی خدمات فراہم کر چکے ہیں۔ افغانستان صدیوں سے اجڑا ہوا نہیں بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ آباد ہوا۔ یہ الگ بات کہ اس کے باشندوں کی جنگجویانہ طبیعت نے اسے بار بار تباہ بھی کردیا۔ اشرف غنی نے جو پڑھا اور جس چیز میں مہارت حاصل کی اس کا استعمال اپنے ملک پر نہ کر سکے۔ وہ ایسا نظام بنانے میں ناکام رہے جو ہنستے بستے افغانستان کو پھر اجڑنے سے بچا سکے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹیوں‘ دفاعی اداروں‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اربوں ڈالر کے بجٹ والے تھنک ٹینکس نے صرف اس بنیادی نکتے پر کام کیا ہے کہ دنیا میں امریکہ کی دفاعی‘ معاشی اور ٹیکنالوجیکل برتری کو کیسے برقرار رکھا جائے جو لوگ اس طرح کے تحقیقی کاموں سے وابستہ ہیں انہیں بڑے بڑے عالمی ایوارڈ دیئے جاتے ہیں۔ ان کی کتابوں اور مضامین کو مباحث کا موضوع بنایا جاتا ہے‘ ان کی شخصیت کے گرد شہرت‘ دولت اور احترام کا ایسا ہالہ بنا دیا جاتا ہے کہ آنکھیں چند ھیا جاتی ہیں۔ علمی‘ ادبی‘ سائنسی‘ ثقافتی اور سماجی حوالے سے بھی ان افراد کو پسماندہ ترین ممالک اور علاقوں سے چن لیا جاتا ہے جو امریکی بالادستی کے لیے کام کرنے والے ماہرین کے مددگار ہوسکتے ہیں۔افغان جنگ کے دوران امریکہ نے ایسے کئی ہیرو بنائے۔ زندگی اتنی مشکل ہو جاتی ہے جتنی آپ بنانا چاہیں۔ یہ اتنی آسان بھی ہو سکتی ہے جس قدر آپ تصور کریں۔ آپ شہر میں رہتے ہیں۔ امراء کی بات نہیں مڈل کلاس کی بات کررہا ہوں۔ مرلوں پر محیط گھر‘ بعض اوقات بہت ہی تنگ۔ اے سی اور پنکھے کے بنا رہنا محال‘ موٹرسائیکل اور کار کے بنا سفر ناممکن۔ پینے کا پانی‘ ایندھن کے طور پر گیس‘ سکیورٹی چارجز‘ ہر چیز پیسے خرچ کرنے سے ملتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں بجلی ہے نہ گیس‘ پانی زمین سے نکالا جاتا ہے یا جوہڑوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ جس عمل کو ہم تعلیم سمجھتے ہیں وہ اس سے دور ہیں۔ ہم غیر ملکی زبانوں‘ علوم‘ افکار اور اطوار کو سیکھتے سیکھتے انہیں اپنانے لگ گئے۔ پسماندہ علاقوں کے لوگ زمین پر سوتے‘ سال میں دو سے زیادہ لباس نہیں بنا پاتے۔ بجلی‘ گیس‘ سکیورٹی‘ پانی اور بچوں کی سکول فیسوں سے آزاد صرف روٹی درکار ہے جسے سادہ پانی کے گھونٹ کے ساتھ معدے میں اتارا جا سکے۔ یہ کتنا عجیب موازنہ ہو گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک مل کر ایسے غریب اور پسماندہ علاقے پر حملہ کردیں۔ ان کے ماہرین چالیس برس تک وہاں رہیں‘ یہاں کے سماج‘ افکار اور مسائل پر تحقیق کریں۔ اپنی تحقیق پر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں لیکچر دیں اور چالیس سال بعد پتہ چلے کہ جو دیکھا وہ دھوکہ اور جو سنا وہ واہمہ تھا۔ ہم نے جو دیکھا وہ بتاتا ہے کہ مادی طاقت نے ہمیشہ اپنے مخالفین کی قوت کا غلط اندازہ لگایا۔ وہ اپنے عہد کی سپر طاقتوں کے حکمران جنہوں نے رسولؐ اللہ کی جانب سے قبول اسلام کی دعوت کا نامناسب جواب دیا، حیران تھے کہ معمولی لباس اور سواریوں والے خانہ بدوش ان کے عالیشان شہروں کو فتح کرلیں گے؟ وہ واقعات تو سب نے پڑھ رکھے ہیں کہ اسلامی لشکر نے جب کسریٰ کے محلات پر قبضہ کیا تو خنجروں سے قالین اور پردے پھاڑ ڈالے کہ تم ان پر اتراتے تھے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ طالبان کوئی مقدس فوج ہیں یا قدامت پسند قبائلی لشکر۔ جاننے کی ضرورت اس سوچ کی ہے جس نے وسائل سے محروم طالبان کو ڈیفنس اورسٹریٹجک سٹڈیز کے استاد سمجھے جانے والے امریکہ کے سامنے فاتح کے طور کھڑا کردیا۔ مادی پسماندگی کو ہرگز جنگی کامیابی کی بنیاد نہیں قرار دیا جا سکتا صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ طاقت دوسرے کو عملی و فکری طور پر پسپا کرنے کی قوت کا نام ہے۔ طاقت آج بھی جنگلوں اور ویرانوں میں بستی ہے۔ طالبان کی پسماندگی مادی ہے‘ جس فکری جوہر کا نام طاقت ہے ان میں وہ جو ہر تربیت یافتہ امریکیوں سے قدرتی طور پر زیادہ ہے۔ اس قدر زیادہ کہ وہ کابل سے نکلتے ہوئے بھی ہوائی جہاز کے ساتھ لٹک جاتے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی ایک علاقہ پڑتا ہے جہاں عشروں سے مادی طاقت اور قدرتی بے خوفی کے امتزاج سے طاقت کو نئی شکل میں جمع کیا جارہا ہے۔ اس پالیسی کے سیاسی چہرے کوطالبان خان کہہ کر مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ریاست کے مفادات سے جڑے لوگ کئی بار اپنے مخالفین کی تضحیک کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان اگر کسی وقت معاشی طور پر آزاد ہو گیا تویقین جانیں یہ دنیا کے بااثر ترین ممالک میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے تین بڑے تجربات میں حصہ لیا۔ پہلے بے تحاشا وسائل کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا جس کا کریڈٹ امریکی حکام ہمیشہ سی آئی اے اور چارلی ولسن کو دیتے رہے۔ دوسری بار پاکستان سے وسائل چھین لیے گئے‘ نہتا کردیا گیا اور اپنی سرزمین پر امریکہ و بھارت کے تیار کردہ ٹی ٹی پی جنگجوئوں کے خلاف لڑنے کے لیے مجبور کردیا گیا۔ پاکستان کی الجھن کا تیسرا سرا افغانستان سے جڑا تھا جہاں بھارت‘ امریکہ اور افغان حکومت مل کر بیس برس تک پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش میں رہے۔ افغان جہاد‘ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں غیر موافق حالات کو موافق صورت حال میں تبدیل کرنا اگر کسی کے نزدیک معمول کام ہے تو اس کی دماغی صحت درست نہیں ہو سکتی۔