ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان پر نئی شرائط رکھ دی ہیں، جن میں انسدادمنی لانڈرنگ اقدامات کے علاوہ بیرون ممالک کا سفر کرنے والوں کے پاس کرنسی، قیمتی اشیاء اور بیرون ملک اخراجات، رقوم کا ذریعہ اور کاروبار کی تفصیلات کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کا کہا گیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا قیام 1989ء میں دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا ۔تنظیم کے 35ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور بھارت بھی شامل ہے۔ تنظیم کے اغراض و مقاصداور دہشت گردی کی روک تھام میں ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی کاوش کے بعد بین الاقوامی سطح پر کالے دھن کے کاروبار میں خاطر خواہ حد تک کمی بھی ہوئی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی قوتوں کی طرف سے حریف ممالک کے خلاف تنظیم کا استعمال ہوا ہے۔ ایران، شمالی کوریا اور پاکستان پر غیر ضروری دبائو اس کی مثال ہے۔ پاکستان 2012ء سے 2015ء تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہ چکا۔ 2018ء میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغان جنگ میں پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے جب یہ مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے دوران 33ارب ڈالر امداد دی جبکہ اس کے بدلے میں امریکہ کو دھوکہ اور فریب ملا۔ ٹرمپ نے پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کا بھی الزام لگایا۔ امریکی دبائو کے بعد پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار مسلسل لٹکتی آ رہی ہے۔ دسمبر 2019ء میں ایف اے ٹی ایف حکام نے 150سوالات پر مشتمل سوال نامہ بھجوایا جس میں پاکستان سے منی لانڈرنگ کے علاوہ کالعدم تنظیموں سے منسلک افراد کو سزا دلوانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ واضح رہے کہ یہ سوال نامہ پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کو 3دسمبر کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے بعد بھیجا گیا تھا۔ سوال نامے میں غیر قانونی طور پر کمائی گئی دولت اور اثاثے بیرونی ممالک منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اداروں کو باہمی تعاون مزید بڑھانے کا کہا گیا تھا۔ اس سے مفر نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پر عمل درآمد کرنے سے نہ صرف دہشت گردوں کو مالی معاونت روکی جا سکتی ہے بلکہ غیر قانونی اثاثوں کا سراغ لگانے سے پاکستان کی معیشت پر بھی بہتر اثرات نمودار ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے جہاں یہ ضرورت ہے کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنائے وہاں عالمی سطح پر جن ممالک میں پاکستان کی دولت لوٹ کر جمع کروائی جاتی ہے ان ممالک کو بھی پاکستان کی رقوم واپس کرنے کا پابند کیا جانا ضروری ہے۔ جہاں تک پاکستان کے اقدامات کا تعلق ہے تو پاکستان اپنے تئیں خلوص نیت سے بھرپور کوششیں کر رہا ہے جس کا ثبوت رواں برس فروری میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف حکام کا پاکستان کے اقدامات کی ستائش کرنا ہے۔ فروری کے اجلاس میں فیٹف حکام نے نہ صرف پاکستان کی کاوشوں کو سراہا بلکہ یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ پاکستان 27شقوں میں سے 14پر مکمل عملدرآمد کر چکا ہے جبکہ 13شقوں پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے اکتوبر 2020ء تک مزید مہلت دی گئی تھی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ رواں برس کے اجلاس میں بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کے لیے بھرپور پراپیگنڈہ مہم چلائی اور رکن ممالک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ حکومت پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا ثمر ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب ایک بار پھر پاکستان کو مزید سخت شرائط پر عملدرآمد کا کہا گیا ہے جس میں پاکستان کے بیرون ملک سفر کرنے والوں کا ڈیٹا بیس مرتب کرنا شامل ہے ۔ پاکستان کو سفر کرنے والوں کے ذرائع آمدن کے علاوہ ساتھ لے کر جانے والی کرنسی اور بیرون ملک کیے جانے والے اخراجات کی تفصیل رکھنا ہو گی۔ ایک لحاظ سے ان تفاصیل کا ریکارڈ خود پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ایسا کرنے سے پاکستان غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثوں بارے معلومات حاصل کر سکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قسم کی معلومات تک رسائی نہ صرف شخصی آزادیوں بلکہ ان تفاصیل تک دیگر ممالک کی رسائی سے قومی مفادات کے برعکس صورتحال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت ایف اے ٹی ایف کے جائز مطالبات پر فی الفور عملدرآمد کے ساتھ قومی سلامتی کے معاملات میں قومی دستاویزات کے تحفظ کو بھی یقینی بنانے کے ساتھ بھارت کے گمراہ کن پراپیگنڈا کو زائل کرنے کے لیے فیٹف کے رکن ممالک سے بھرپور سفارتی رابطے بھی جاری رکھے تا کہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا امکان نہ رہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کیلئے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد نئی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم ریاست کی مجبوریاں اور عوام کی مشکلات میں توازن رکھ کر ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے تمام وزارتوں کو اس سلسلے میں پہلے ہی ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ ان رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے جو ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد میں حائل ہیں۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر آئینی ترامیم کا مسودہ تیار کیا جائے گا جس سے آئندہ کیلئے پاکستان کیلئے آسانی ہو سکتی ہے۔