امریکہ کے دروازے پر کمیونسٹ ریاست کی بنیاد رکھنے والے فیڈل کاسترو کی تیسری برسی گزرگئی ۔ کیوبا کے یہ عظیم لیڈر جس بھی نظریے کے حامل رہے تھے۔ کارل مارکس کے نظریات کو ازبر کرنے والے کاسترو اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر(Fulgencio Batista) کی حکومت کو للکارنے لگے جو غیرآئینی طریقے سے بنی تھی۔ ان کی حکومت کے خلاف کاسترونے تقاریر کیں، تحریک چلائی اور ملک کے کونے کونے سے کم لیکن ثابت قدم انقلابیوں کو اکٹھا کیا۔ اپنے ایک سو پچاس انقلابی ساتھیوں کی مددسے فیڈل کاسترو نے 26 جولائی 1953ء کو کیوبا کی فوجی بیرکوں پر حملہ کرکے انقلاب لانے کا آغاز کیا۔ اس حملے کے دوران ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور زخمی حالت میں گرفتار کرلئے گئے جبکہ ان کے دوسرے انقلابی ساتھی ملک سے فرار ہوکر پانامہ، وینزویلا اور دوسری ریاستوں میں پناہ لینے لگے۔ چی گویرا اسی وقت اپنی محبوبہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے، ان کے محبوبہ کے مطابق چے گویرا اور فیڈل کاسترو ساری رات انقلاب سے متعلق باتیں کرتے تھے۔چند سال بعد سمندری راستے کے ذریعے ایک پرانی کشتی میں چی گویرا اور اپنے بھائی راول کاسترو اور اسی کے قریب انقلابیوں کے ساتھ مشرقی کیوبا پہنچ کر سیارا کی پہاڑیوں میں ڈیرے ڈال دیے۔ انہی پہاڑوں سے امریکہ کے لاڈلے بتستا باتستا حکومت کے خلاف پیہم گوریلا وار لڑتے رہے۔ مزاحمت کے ان پرکرب ایام میں ان کے بہت سے انقلابی ساتھی مارے گئے، حتی کہ ایسا وقت بھی آیا کہ کاسترو کے ساتھ صرف انیس انقلابی رہ گئے۔ طویل کوششوں کے بعد سال انیس سو انسٹھ کو بالآخرکاسترو میدان جیت گئے اور بتستا اپنے امریکی آقائوں کی طرف فرار ہوکر کیوبن صدر سے ایک بھگوڑے بن گئے۔ کاسترو اب ایک قومی ہیرو کے طور پرسامنے آئے، ہوانامیں دس لاکھ لوگوں نے ان کااستقبال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دن انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے خطاب کے دوران کاسترو نے بتستا کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے ان کے آقاوں کی خوب خبر لی، کیونکہ ایک دریا پار کرنے کے بعد انہیں اک اور دریا کاسامنا تھا۔ ڈکٹیٹر بتستا حکومت کے شدید مخالف مائرو کارڈونا وزیراعظم جبکہ کاسترو فوج کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے، بعد میں کارڈونا کے غیر متوقع استعفے کی وجہ سے کاسترو کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنا پڑا۔ وزیراعظم بننے کے کچھ عرصہ بعد کاسترو نے ملک میں کئی اصلاحات شروع کیں، ان اصلاحات کے نتیجے میں انہوں نے کیوبا کے کارخانے، اہم املاک اور خاص کرامریکی اثاثے قومی ملکیت میں لئے، چونکہ کاسترو کا اصل ہدف ہی امریکی معیشت کی بالادستی ختم کرنا تھا، سوکرڈالا۔انتقام کے طورپر امریکہ نے کیوبائی شوگر کی خرید سے ہاتھ کھینچ لیا اور تیل بھی روک لیا۔ کاسترو کے ان اقدامات کو غریب اور نچھلے درجے کے لوگوں کی خوب حمایت حاصل رہی تاہم مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے پروفیشنلز کاسترو کے ان اقدامات کے مخالف ہوتے گئے، اورپھرکیوبا سے امریکہ کی طرف ماس مائیگریشن شروع ہونے لگا جو کہ کیوبا کے لئے معاشی برین ڈرین ثابت ہوا۔ کاسترو کے ان اقدامات پر تنقید تو ہوتی رہی لیکن امریکی تعاون سے مختلف اینٹی کاسترو گروپس بھی پیدا ہونے لگے۔ سوویت یونین سے مضبوط تعلقات استوار کرکے کاسترو نے کیوبا دفاعی کمیٹی بنائی، سوویت حکومت سے تیل خریدنے اور شوگر دینے کے معاہدے کیے۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب غضب کی آگ میں جلتے امریکی صدر آئزن ہاور نے کیوبا سے مکمل طور پر سفارتی تعلقات کا بھی خاتمہ کیا۔انیس پینسٹھ کو کاسترو نے کیوبا کمیونسٹ پارٹی تشکیل دی اور ملک کو ایک سوشلسٹ ریاست ڈکلیئر کردیا۔ ان کی حکومت کو گرانے کے لئے امریکہ نے اپریل انیس اکسٹھ کو ہزاروں جلاوطنوں کے ذریعے کیوبا پر دھاوا بول دیا جسے سخت جاں کیوبن فوج نے ناکامی سے دوچار کیا۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ای سکلانتے کے مطابق فیڈل کاسترو کو کم ازکم 638 مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بچ نکلے۔ سخت جاں کاسترو اور ان کے انقلابیوں کی انقلاب کے طفیل کیوبا آج دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں زندگی کے بنیادی وسائل کے حصول کے لئے عوام کو نہ تو گونا گوں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور نا ہی تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح غریبوں کا استحصال ہوتا ہے۔ جہاں بجٹ خسارے سے ہمہ وقت بچ پاتا ہے، جہاں شرح خواندگی ستانوے اورننانوے کے درمیان ہے، جہاں تعلیم اورصحت مفت، جہاں ننھے منھے بچوں کی اموات کی شرح ہزار میں چھ سے کم ہے۔ جہاں بے روزگاری نام کی کوئی چیز نہیں اور شکم کی آگ بجھانے کے لئے لوگ جسم فروشی پر مجبور ہوتے ہیں اور نا ہی بھیک مانگنے کا سوچتے ہیں۔ امریکی سامراج کی بالادستی سے نبرد آزما کاسترو کہا کرتے تھے کہ جب تک انسان کا خوں چوسنے والا سامراج باقی رہے گا، اس وقت تک حریت اور آزادی کے متوالے مزاحمت کرتے رہینگے اور ہم ان کے پشت پر ہوں گے ۔ کیوبا میں ایک بڑی تبدیلی لانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر دینے والے کاسترو اگرچہ ستاون سال تک حکمران رہے لیکن شاہانہ زندگی کی انجوائے منٹ سے آخری دم تک گریزاں رہے۔ ذاتی ملکیت رکھی اور نہ ہی عوام کے حقوق کے مقروض اور سرکاری خزانے کے سارق ثابت ہوئے البتہ موروثیت ان پربھی غالب رہی کیونکہ چاردہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے باوجود کیوبا کی حکمرانی کے لئے اپنے ہی بھائی کاانتخاب کیا جو یقینا انقلابیوں کا شیوہ نہیں۔ زندگی کے آخری دنوں تک امریکی پالیسیوں کے شدید ناقد رہے، دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اسی وقت کے صدر بش کی پالیسیوں کو فراڈ اور دوغلے پن سے تعبیر کیا۔ طویل علالت کے بعد ان کی انتقال کی خبر نے مجھ سمیت ہزاروں امریکی سامراج مخالفین کو شاید اس لئے سوگوار کردیا کہ کاش سامراج کو تگنی کا ناچ نچانے والا کچھ دن اور زندہ رہتا۔