جنگ مسائل کا حل نہیں، جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے۔ مکالمے اور بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ یہ تب بند ہوتے ہیں جب جنگ کی ٹھان لی جائے اور جب یہ احساس ہو جائے کہ جنگ کا فیصلہ قطعی طور پر احمقانہ تھا تو تباہی و بربادی کے ملبے پر بیٹھ کر بات چیت اور مکالمے کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پھر یہ حساب کتاب کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ کس کے حصے میں کیا آیا؟ رسوائی اور پسپائی کے اس تخمینے میں کسی کے حصے میں کچھ نہیں آتا سوائے شرمندگی کے۔ کوئی شبہ نہیں کہ جو کچھ ہوا اس میں ہماری حکومت نے نہایت تدبر اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے ہزیمت اور حماقت کے سوا کچھ نہیں پایا۔ ہماری فضائیہ نے جو شجاعت اور کارکردگی دکھائی اس نے دنیا کو دکھا دیا کہ چاہے پاکستان بھارت اپنے حریف سے کتنا ہی چھوٹا ملک سہی لیکن وہ اپنے ’’عظیم جارح‘‘ کی ناک رگڑنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔بہادری اور جنگی مہارت کا تعلق جذبے اور تربیت سے ہوتا ہے ناکہ اس سے کہ آپ کتنے گرانڈیل اور کتنے ساز و سامان سے لیس ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں اور ان پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمیں ایک ایسا پڑوسی ملا ہے جو عیارومکار اور بدنیت ہے جس نے روز اوّل سے ہمیں اور ہمارے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا جو آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ یہ خطہ اس کی سرزمین ہے اور اس پر حکومت کا حق اسی کو حاصل ہے۔ یہ ہندو ذہن ہے جس سے اچھائی اور بھلائی کی امید رکھنا کو تاہ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ ہندو ذہن تنگ و تاریک ہی نہیں، تاریخ میں جو کچھ ہوا اسے بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہند پر مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور اس حکومت کے پورے ہند پر پھیلے ہوئے جا بجا آثار و شواہد اس کے سینے پر مونگ دلتے ہیں۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ ایک حکم نامے کے ذریعے ان آثار و شواہد کو مٹا ڈالے۔ دلّی کا لال قلعہ ہو یا تاج محل، جامع مسجد ہو یا حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار مبارک یا اور آثار جو زبان حال سے کہتے ہیں کہ یہ ملک کبھی مسلمانوں کے زیر تسلط رہا ہے اور پچھلی صدیوں میں مسلمانوں نے ایک ایسی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے جسے ہند اسلامی تہذیب یا گنگاجمنی تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔ مسلم عوام ہوں یا مسلم حکمراں وہ اس تہذیب کے وارث تھے اور عہد غلامی میں بھی انہوں نے گورے آقائوں کے جوتے نہیں چاٹے، اپنی انفرادیت کو باقی رکھا اور اپنی تہذیب اور تاریخ کی پوری حفاظت کی۔ انہوں نے ہندوئوں کے ساتھ سرزمین ہند پر مل جل کر ساتھ رہنے کی آخری حد تک کوششیں کیں لیکن احساس شکست نے ہندو عوام اور ہندو قیادت کو بدترین احساس کمتری میں مبتلا کر دیا اور وہ صدیوں کی غلامی کا انتقام لینے کے لیے مسلمانوں کو اپنے برابر کی حیثیت دینے پر کسی حال میں تیار ہی نہ ہو سکے۔ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر منقسمانہ جذبات میں مبتلا ہوئے کہ اگر آٹھ صدیوں تک مسلمانوں نے ہم پر حکومت کی تو اب ان پر ایک ہزار سال تک حکومت کرنے کی ہماری باری ہے۔ قیام پاکستان ہندو قیادت اور ہندو عوام کے لیے اعلانِ شکست تھا اور آج تک یہ اعلانِ شکست ہی ہے۔ یہ وہی ذہنیت تھی جس نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت سے یہ کہلوایا کہ ہم نے ایک ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا۔ ہندو ذہن اس اعترافِ حقیقت سے قاصر ہے کہ ہندوستان کی عظمت کو منوانے میں مسلم سلاطین اور مسلم طبقۂ دانش کا کتنا عظیم حصہ رہا ہے۔ مسلم بادشاہوں نے اپنے ادوار حکومت میں کبھی ہندوئوں کو غلام نہیں سمجھا۔ انہوں نے ہندو خواتین سے شادیاں کیں، ہندوئوں کے تعلیم یافتہ برہمنوں کو اپنا مشیر بنایا۔ انہیں حکومت میں حصہ دیا۔ ان کے مذہب و ثقافت سے کبھی تعرض نہ کیا۔ مذہبی معاملات اور تنازعات سے حکومتی معاملات کو ہمیشہ پاک رکھا۔ اپنے جانشینوں کو حکومت سونپتے ہوئے اکثر یہی نصیحت کی کہ ریاستی امور میں مذہبی عصبیت کو جگہ نہ دینا۔ انہوں نے عوام کے دکھ سکھ کا خیال رکھا اور حکومت کرتے ہوئے عقیدے اور مذہب کو پس پشت رکھ کر حکومت کی۔ اسی لیے آٹھ صدیوں تک مسلم عہدِ حکومت فرقہ ورانہ تنازعات، ہندو مسلم فسادات سے ہمیشہ پاک صاف رہا۔ اصل میں اسلامی تعلیمات ہی کشادہ دلی اور کشادہ نظری کا مظہر رہی ہیں۔ اسلام بنیادی طور پرایک انسان دوست مذہب رہا ہے جس میں عقیدے کی اندھی محبت میں غیر مسلموں کے ساتھ نفرت اور تشدد کی سختی سے ممانعت ہے۔ کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ یہ حکم مسلمان کے قتل کے سلسلے میں نہیں انسان کے قتل کے حوالے سے آیا۔ لہٰذا جنگوں کو چھوڑ کر کہ اس میں کشت و خون تو ہوتا ہی ہے۔ مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی حکومت کی، صلح و آشتی سے ہی غیر مسلموں پر حکومت کی اور سرزمین ہند پہ اسلام کے اصل نمائندے تو وہ صوفیائے کرام ہی ٹھہرے جنہوں نے کہا کہ کافر کے کفر سے بیزاری تو قابل فہم ہے لیکن کافر سے نفرت کسی طور بھی گوارا نہیں کہ کافر کے اندر بھی اللہ جل شانہ کی پھونکی ہوئی روح ہے۔صوفیائے کرام کا مسلک انسان دوستی ہی تھی کہ آج صدیوں بعد بھی بلا امتیاز مذہب و ملت ان کا احترام دلوں میں پایا جاتا ہے۔ اس اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کبھی ہندو ذہن اور بالخصوص براہمن ذہن کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی ہند میں ایک چھوٹا سا طبقہ ہندوئوں میں بھی پایا جاتا ہے جو مسلمانوں سے رواداری برتنے کا قائل ہے اور یہی انگریزی تعلیم یافتہ ہندو طبقہ کشمیری مسلمانوں پر مظالم کو درست نہیں سمجھتا۔ یہی طبقہ ہے جس نے گجرات میں مسلم کشی کی یا بابری مسجد کی شہادت کی جی کھول کر اعلانیہ مذمت کی۔ لیکن فرقہ وارات نفرت کی فضا میں اور بھارتی تنگ دل میڈیا کے منافرت کے شور و غوغا میں اس چھوٹے سے طبقے کی کون سنتا ہے۔ ہندو مسلم تعلق کی یہ پیچیدگی ہی ہے جو بڑھ کر دو ملکوں کے درمیان تصادم کا بیج بو دیتی ہے۔ یہ تصادم کروڑوں انسانوں کی سلامتی کے سوال سے منسلک ہے کہ اب دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ محض چنائو میں فتح یابی کے لیے جنگ کا ہتھکنڈہ اور سرحدوں پر کشیدگی دانائی نہیں بے وقوفی ہے اور مودی سرکار اس بے وقوفی کی مرتکب ہو کر دنیا بھر میں اپنی رسوائی کا سامان اکٹھا کر چکی ہے۔ اب اسے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کروڑوں انسانوں کی زندگی اور ان کا امن و سکون فیض احمد فیض کے وہ الفاظ یاد دلاتے ہیں جو انہوں نے ماسکو میں امن انعام لیتے ہوئے ادا کیے تھے کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت، شاعر کا قلم ہیں اور مصور کا موئے قلم… اس سے آگے یہ کہ یہ بچوں کی قلقاریاں ہیں اور دوشیزائوں کی مہکتی ہنسی، جوانوں کی رعنائیاں ہیں اور موسم بہار کی خوشبوئیں۔ اس خوب صورت دنیا کو جنگ کی بھٹی میں نہ جھونکو۔ اسے اور خوب صورت بنائو اتنا حسین اور دلکش کہ کوئی دھرتی پر دُکھی نہ رہے۔ سب سکھی ہو جائیں اور انسان، انسان سے نفرت نہیں، محبت کرے کہ سارے انسانوں کے خون کا رنگ ایک ہی ہے اور سارے انسان ایک ہی ہیں کہ ایک باپ سے ساری نسل انسانی چلی ہے اور سب اسی کے بیٹے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ علم کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی کثرت نے بھی مودی جیسے انسانوں کو اتنی سی بھی عقل نہیں سکھائی کہ انسانوں کو باہم مل کر رہنا چاہیے اور لڑائی و دنگے سے بچنا چاہیے کہ اس میں سکھ نہیں دکھ ہی دکھ اور ہلاکت و پشیمانی ہے۔