ہیں زمانے میں بہت صاحب ِحِس کی قِسمیں سب سے اچھا ہے وہی، ذوق ِفنا ہو جِس میں! دوسروں کو لچانا آسان ہے، اپنی اَنَا کو دبانا مشکل! اَوروں پر قدغن لگانا سہل ہے، اپنی تمنائوں کی روک تھام دشوار! شہرت کی کاوشیں، اْبھرنے کی کوششیں، ایک حد تک جائز ہی ہیں۔ پر یہ جستجوئیں، اگر ہَوکا بن جائیں تو انجام معلوم! اس میں طْول ِامل ہزار ہزار زندگی کا مدار ایک نَفَس خواہشوں کی درازی کا ذکر کلام ِپاک میں اس طرح آیا ہے کہ طْول ِامل نے انہیں مشغول کیے رکھا، انجام بھی جلد دیکھ لیں گے! قوم کی رہنمائی کا بھی شوق بھی، خواہشوں کی درازی ہی دلاتی ہے۔ اسی لیے سیاست ایک ایسی ٹیڑھی کھِیر بن چکی ہے، جس کا پچا جانا، نہایت مشکل ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ع چو گِل بسیار شد، پیلان بلغزند یعنی، کیچڑ زیادہ ہو تو ہاتھی تک پھِسل جاتے ہیں۔ میدان ِسیاست بھی اب کیچڑ ہی کیچڑ ہے۔ اس سے صاف سْتھرا برآمد ہونا قریب قریب محال ہے۔ افسوس کہ اس نظام کا سارا بگاڑ اور بھْگتان عوام کے سَر جاتا ہے۔ یہ المیہ، صرف تیسری دنیا کے مْلکوں کا نہیں ہے۔ گنتی کے چند مْلکوں کے سوا، ساری دنیا کا حال یہی ہے۔ یہ نظام، دراصل عوام کے مفادات کے خلاف، خود انہی کی رائے لینے کا گْر ہے! یا یہ کہہ لیجیے کہ اپنی رائے، یہاں دوسروں کی زبان سے سنی جاتی ہے اور وہ بھی اس طور کہ ع ہر اِک کو ہو گماں کہ مخاطب ہمی رہے یہ ایسا گورکھ دھندہ ہے، جس میں امریکن صدر کی بھی کچھ پیش نہیں جا سکتی۔ بلکہ آزاد مشرب اور راست باز لیڈر وائٹ ہائوس کے نزدیک بھی نہیں پھٹک سکتا۔ امریکی سیاست میں سرمائے کا دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کے بغیر، کانگرس کا رکن منتخب ہونا ممکن ہی نہیں۔ دعوے ان کے یہی ہوتے ہیںکہ اسٹیٹس کو یعنی حالات ِحاضرہ کو بدل دیں گے۔ مگر اسٹیٹَس کو کے دفاع کی پہلی اینٹ اْسی دن رکھ دی جاتی ہے، جب یہ سیاست دان ڈونرز کی امداد قبول کر لیتے ہیں۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز آیا ہے اب مزاج تیرا امتحان پر سو اس امتحان میں عوام کے نمائندے، سارے کے سارے فیل ہوتے آ رہے ہیں۔ مثلاً باراک اوباما سے لوگوں کو بڑی توقعات تھیں۔ لیکن اوباما نے بھی اپنی انتخابی مہموں میں وال اسٹریٹ سے مالی امداد لی تھی۔ نتیجہ یہ کہ صدر بنتے ہی پہلا کار ِخیر یہ کیا کہ وال اسٹریٹ کو اربوں ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج دے دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی "فرزانگی" سے زیادہ، ان کی "دیوانگی" سے یہ توقع تھی کہ وہ مختلف ثابت ہوں گے۔ لیکن وہ بھی ڈھرے پر آ کر رہے۔ امریکن صدور کا یہ ہڈرا، رفتہ رفتہ ہوا ہے۔ جو شخص ایمان دار ہو گا، کانا نہیں ہو گا، کسی کا دبیل نہیں ہو گا، وہ اسٹیبلشمنٹ سے کھْل کر ٹکرا بھی جائے گا۔ امریکن صدر ایف ڈی آر کی مثال موجود ہے۔ کھرے آدمی تھے، سو بعض ساتھی بھی قدرت نے انہیں ایسے فراہم کر دیے، جنہوں نے ان کی صدارت کو پانچوں انگلیاں پانچوں چراغ کا مصداق بنا دیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ گْلستان کے سدا بہار پھْول! دنیا میں ان گنت لوگ نامور ہو گْزرے ہیں۔ لیکن وقت کی کسوٹی پہ پورا اْترنے والے، کتنے ہیں؟ فوراً کرے یا صدیوںبعد، یہ کساوٹ کھوٹے کھرے کا فیصلہ کر کے رہتی ہے! علم و ادب کے میدان میں بھی پِتّہ ماری، صدیوں سے کی جا رہی ہے۔ مگر قبولیت ِعام کا درجہ، بہت کم تصانیف کو مِل پایا۔ اس خاکسار کو عالمی ادب سے اگر ایک کتاب کا انتخاب کرنا ہو، تو وہ گْلستان ِسعدی ہو گی۔ گْلستان کے دو کمال تو ایسے ہیں کہ باید و شاید۔ یہ بیک وقت نظم اور نثر، دونوں کا عمدہ ترین مْرقع ہے اور اس سے ہر عْمر اور استعداد کے پڑھنے والے، مستفید ہوتے آئے ہیں کسی تصنیف کا معنوی وزن پرکھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کا ترجمہ دیکھ لیجیے! لفظوں کے دھنی، ترجمے میں فوت ہو جائیں گے۔ معنی کے مبلغ، اس مرحلے سے البتہ سلامت نکل آئیں گے! اپنے محدود علم میں، لفظی اور معنوی خوبیوں کی ایسی جامع تصنیف، صرف گْلستان ہی کو پایا ہے۔ تاسف کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اردو کے نثر نگاروں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جس کی تحریریں لفظی اور معنوی، دونوں اعتبار سے گْلستان کا کچھ بھی مقابلہ کر سکیں! اْردو شاعری کی طرح نثر میں بھی فصاحت اور بلاغت کی تقسیم کی جا سکتی ہے۔ فصاحت یا لفظی دلکشی محمد حْسین آزاد، ابوالکلام آزاد مولانا دریابادی اور شاہد احمد دہلوی وغیرہ کے حصے میں آئی ہے۔ بلاغت یا معنی آفرینی پروفیسر رشید احمد صدیقی، مولانا مودودی، محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور یوسفی صاحب وغیرہ کے یہاں زیادہ پائی گئی ہے۔ مگر دونوں خوبیوں کی حامل، زیادہ سے زیادہ چند تحریریں نکلیں گی۔ فارسی زبان فخر کر سکتی ہے کہ اس نے عالمی ادب کو گْلستان کا تحفہ دیا ہے! اس کے مصنف شیخ سعدی نے، خدا جانے، قبولیت کی کونسی گھڑی میںکہا تھا بَچِہ کار آیدت زگْل طَبَقی؟ از گْلستان ِمَن، بِبَر وَرَقی! گْل، ہمین پنج روز و شَش باشد وین گْلستان، ہمیشہ خَوش باشد یعنی پھولوں کے تھال سے کیا پا لو گے؟ ہاں! میرے "گْلستان" کا ہر وَرَق، تمہیںکام دے گا! پھولوں کی عْمر چند روزہ ہے۔ مگر میرا "گْلستان"، ہمیشہ کھِلا رہے گا! سات سو برس گْزر چکے۔ شیخ کا یہ قول، آج بھی کھَرا اور سچا ہے۔ کیوں نہ ہو؟ جِس نے نیت، خلق ِخْدا کے بھلے کی باندھی، اْسے برکت خْدا نے دی! وجہ ِتصنیف یہ بیان کرتے ہیں۔ ہر دَم از عْمر، می رَوَد نَفَسی چْون نگاہ می کْنم، نماند بَسی اے! کہ پنجاہ روز در خوابی اے!کہ پنجاہ رفت در خوابی زندگی ہر سانس کے ساتھ گھَٹتی جاتی ہے۔ دیکھتا ہوں کہ زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔ اے ساری عْمر غفلت میں گْزارنے والے! یہ جو ذرا سی بَچ رہی ہے، اس کو ضائع نہ کر! غرض یہ پند و نصائح کا ایسا دفتر ہے، جو ہر اسکول ہر مدرسے میں پڑھایا جانا چاہیے۔ اس میں بہت سی حکایتیں حاکموں کی تربیت کے لیے لکھی گئی ہیں۔ جن کو واقعی دعویٰ خدمت ِخلق کا ہو، ان کے تو یہ سرھانا موجود ہی رہنی چاہیے!