فرمان علی خان کو پاکستانی قوم کا بھی سلام جسے آج سعودی عرب میں رہنے والے اپنا ہیرو مانتے ہیں اور سعودی حکومت اس پاکستانی محسن کو 10سال بعد بھی بھولی نہیں ہے۔ بہت اچھا لگا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان میں آ کر پاکستان کے اس بہادر بیٹے کی شجاعت اور بے لوث خدمت کو پارہ کیا اور اعلان کیا وہ فرمان علی خان کے نام پر پاکستان میں ایک ہیلتھ سنٹر بنانا چاہتے ہیں۔ فرمان علی خان سوات کا رہنے والا۔ محنت مزدوری کی تلاش میں اپنے دیس پاکستان کو چھوڑ کر سعودی عرب گیا۔ وہ جدہ میں ان دنوںمقیم تھا جب 2000ء میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب نے جدہ کے گلی کوچوں کو بہتے دریا کی مانند کر دیا تھا؎ میں تو خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر پانی بپھرے ہوئے دریا کی مانند شہروں میں گلی کوچوں میں‘ انسانی گاڑیوں اور سازو سامان کو بہا لے جانے لگا۔ سعودی حکومت کے بہترین انتظامات اور حفاظتی بند بھی اس قدرتی آفات کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔ فرمان علی خان کی بے مثال بہادری کا واقعہ اسی تباہ کن سیلاب کی یاد ہے جب اس نے ایک جگہ لوگوں کو پانی میں ڈوبتے اور موت کے منہ میں جاتے دیکھا تو اپنی کمر کے ساتھ رسی باندھ کر خود سیلاب بلا خیز میں کود گیا۔ فرمان علی نے اس جذبہ اثیار کے ساتھ ایک دو نہیں پورے 14افراد کو سیلابی موت کے منہ سے نکالا اور ان کے لئے ایک نئی زندگی کا وسیلہ بنا۔ وہ ایک جنونی مسیحا کی طرح ڈوبتے لوگوں کو بچاتا رہا۔ پندرھویں دفعہ جب وہ ایک ڈوبتے شخص کو بچانے کی تگ و دو میں تھا تو سیلاب کی بے رحم موجیں اس عظیم ایثار کش مسیحا کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔ بلا شبہ یہ شجاعت اور ایثار کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ عام سعودی شہری سے لے کر سعودی سرکار اور شاہی خاندان تک سبھی فرمان علی کی اس غیر معمولی شجاعت اور قربانی کے قائل ہو گئے سعودی حکومت نے اسے وہاں کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا۔ فرمان علی پاکستان کے شہر سوات کا رہنے والا تھا۔ اس کا بوڑھا باپ بیوی اور تین بیٹیاں پاکستان میں ہی تھیں جب انہیں خبر ملی کہ روزی کمانے کے لئے پردیس گیا ہوا ان کا پردیسی باپ 14افراد کو بچاتے‘ شہید ہو چکا ہے۔ سعودی حکومت نے فرمان علی کے سارے خاندان کو خصوصی طور پر سعودی عرب بلوایا انہیں سرکاری مہمان کا درجہ دیا اور ایک خصوصی تقریب میں فرمان علی خان کو اعزازات سے نوازا گیا،اس بہادر پاکستانی کی یاد میں جدہ کی گلی کا نام بھی رکھ دیا گیا۔ ان کے والد کا کہنا ہے جب مجھے اپنے بیٹے کی ناگہانی موت کا پتہ چلا تو یہ میرے خاندان کیلئے قیامت کا لمحہ تھا۔ لیکن جب ہمیں یہ تفصیل معلوم ہوئی کہ وہ 14افراد کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوا ہے تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ ہمیں خوشی اور حیرت یہ ہوئی کہ 10سال بعد بھی فرمان علی خان کی قربانی کا احساس وہاں موجود ہے اور شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستانی بیٹے کے گھر میں اس کی یاد میں ہیلتھ سنٹر بنانے کا اعلان کر کے پاکستانیوں اور بالخصوص فرمان علی کے خاندان کے دل جیت لیے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کی یادداشت اس حوالے سے بہت بری ہے۔ محسنوں کو ہم یوں بھی بھولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں لاہور میں ڈینگی کی وبا اس طرح سے پھوٹی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ ڈینگی بخار میں مبتلا ہو کر چل بسے تھے اس سے شدید خوف و ہراس کی فضا تھی ان دنوں جنرل ہسپتال لاہور کی ایک نرس ڈینگی مریضوں کا دن رات خیال کرتے ہوئے خود وائرس کا شکار ہو کر چل بسی تھی۔ فرائض کی ادائیگی میں جواں سال نرس کی جان چلی گئی اس پر ان دنوں اخبارات میں تو چرچا ہوا تھا کہ نرس کے نام پر جنرل ہسپتال کے ایک وارڈ کو مختص کیا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد جب کوئی خبر پرانی ہو جائے تو پھر اس کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے یہی سلوک شاید اس کے ساتھ بھی ہوا۔ بعد میں کسی نے اس کا فالو اپ نہیں لیا کہ اس نرس کو خراج تحسین پیش کرنے کو وارڈ کو اس کے نام سے منسوب کیا گیا یا نہیں! اسی طرح ایک اور واقعہ ہے لاہور سے باہر کسی شہر کا، کہ سکول کے بچوں کی وین کو سلنڈر سے آگ لگ گئی تھی بچوں کے ساتھ ایک ٹیچر بھی وین میں تھیں ٹیچر نے کسی طرح خود کو وین سے بحفاظت نکال لیا تھا۔ لیکن پھر وہ قربانی اور اثیار کے جذبے کے تحت آگ میں جلتے بچوں کو وین سے نکالنے دوبارہ آگ کے شعلوں میں لپٹی وین کی طرف چلی گئی اور اس تگ و دو میں اس عظیم اثیار کیش استانی کو بھی آگ نے دوبارہ لپیٹ میں لے لیا آج ہمیں نہ اس استانی کا نام یاد ہے نہ اس نرس کا۔ سماج میں ایسے بے لوث ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ کرنے والے افراد کتنے ہوں گے۔؟ یہاں تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مفاد کے دائرے میں سفر کر رہا ہے پھر ایسے نایاب لوگوں کو سرکاری سطح پر خراج پیش کرنا چاہیے کیونکہ ایسے لوگ خود غرضی اور مفاد پرستی کے اندھیرے میں ایک روشن چراغ جیسے ہیں میرے نزدیک توہر وہ شخص اس معاشرے کا ہیرو ہے اور خراج کا مستحق ہے جو اپنی ذات اور مفاد کے دائرے سے باہر نکل کر خالصتاً دوسروں کی فلاح کے لئے کوئی کام کرے۔ کراچی کے ایک غریب علاقے میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ایک ہمدرد خاتون پروین سعید نے انتہائی مستحق اور بھوکے افراد کے لئے کھانا گھر بنایا جہاں دس روپے میں ایک غریب کھانا کھا سکتا ہے۔ وہ خاتون اس معاشرے کی محسن ہیں کئی سالوں سے وہ یہ خدمت سرانجام دے رہی ہیں کبھی سرکار نے ان کو اعزاز دینے کا سوچا! یہاں تو سرکاری اعزاز بھی خوشامد اور سفارش کے بل بوتے پر ملتے ہیں۔ غالباً اسلام آباد میں ایک ریٹائرڈ سکول کے استاد ہیں جو غریب بچوں اور مزدور بچوں کو مفت تعلیم دے رہیں ہیں۔ وہ اس سماج کے ہیرو ہیں ڈاکٹر انتظار حسین بٹ‘ ممتاز آئی سرجن جنہوں نے چند سال پہلے پی او بی کی بنیاد رکھی اور اب اس کے تحت ماہانہ بنیادوں پر سینکڑوں غریب مریضوں کا مفت آپریشن اور علاج کر رہے ہیں ان کے ساتھ ساتھی ڈاکٹروں اور آئی سرجنز کی ایک پوری ٹیم ہے۔ کیا کبھی سرکاری سطح پر ایسے سماجی اور قومی ہیروزکو خراج پیش کیا جائے گا۔ فرمان علی خان تو خوش قسمت تھا کہ وطن سے دور پردیس میں اس کی جان ایک عظیم خدمت سرانجام دیتے ہوئے کام آئی اور آج تک سعودی حکمران اس کو بھولے نہیں پاکستان میں ہوتا تو دس سال بعد کسی کو اس کا نام تک یاد نہ ہوتا ۔ محمود شام صاحب کا ایک لازوال شعر یاد آتا ہے: جتنے محتن تھے سبھی راندہ درگاہ کیے ہم سے احسان کسی کے بھی اٹھائے نہ گئے