برادر بزرگ سجاد میر صاحب نے اپنے گزشتہ کالم میں جس طرح تڑپ کر کراچی کو یاد کیا ہے اس کیفیت نے ہم کراچی والوں کو متاثر ہی نہیں کیا، رنگا رنگ تصویروں سے بھرا حافظے کا البم کھل گیا۔ کراچی میں رہتے ہوئے وہ کراچی سامنے آ کھڑا ہوا جو یادداشت کے نہاں خانے میں تو زندہ سلامت ہے لیکن عملاً موجود نہیں۔ اب جو کراچی حقیقت کی دنیا میں موجود ہے وہ لہولہان، غموں اور مصائب سے سے پریشان حال کراچی ہے جو بہ قول میرؔ صاحب کبھی ایک تہذیبی شہر ہوا کرتا تھا، جہاں پروفیسر کرار حسین، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، شان الحق حقی، ڈاکٹر جمیل جالبی، شمیم احمد، سبط حسن، پروفیسر ممتاز حسین، مشفق خواجہ، جمیل الدین عالی، ابن انشائ، ہاجرہ مسرور،ادا جعفری، پروین شاکر، افتخار عارف غرض کہ ادب و صحافت کے آسمان کی ایک کہکشاں تھی جس کی ضوفشانیوں سے یہ شہر روشن نظر آتا تھا۔ سلیم احمد، قمر جمیل اور محب عارفی کے گھروں کے دروازے رات گئے تک کھلے رہتے تھے۔ ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، علمی، ادبی، سیاسی، مذہبی موضوعات پر گفت و شنید اور تبادلۂ خیال کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ حلقۂ ارباب ذوق اور دیگر ادبی انجمنوں کے تحت ہر ہفتے کہیں نہ کہیں ادبی نگارشات پر دھواں دھار تنقیدی نشستیں پابندی سے ہوا کرتی تھیں۔ ’’افکار‘‘’’سیپ‘‘ ’’نیا دور‘‘ ’’نقش‘‘ اور اس نوع کے کئی بلند پایہ ادبی رسائل وہ جو ادبی زبان میں کہتے ہیں، منصّۂ شہود پر آتے تھے اور موضوع گفتگو بنتے تھے۔ ریڈیو پاکستان خود ایک تہذیبی ادارہ تھا جس کی کینٹین اور پروڈیوسروں کے کمرے ادیبوں اور دانش ورروں کی آماجگاہ ہوتے تھے۔ ضمیر علی بدایونی، عصمت زہرہ، شہناز سلیم، انعام صدیقی جیسے صاحبان علم پروڈیوسر ہوا کرتے تھے۔ جنہیں علم و ادب سے ایسی دلچسپی ہوتی تھی کہ ان کے حساب میں کینٹین سے آنے والی چائے کے دور چلتے رہتے تھے اور بحث و مباحثہ جاری رہتا تھا۔ تب اس شہر میں حکیم محمد سعید جیسی تہذیبی شخصیت اور محمد صلاح الدین اور ضمیر نیازی جیسے صاحبانِ ضمیر صحافی بستے تھے۔ ایسی شخصیتوں کی فہرست بنانے بیٹھو تو گھنٹوں لگ جائیں اور فہرست پھر بھی مکمل نہ ہو گی۔ بے شک تب بھی کراچی تجارتی شہر تھا اور اپنے وصول شدہ ٹیکسوں سے ملک کو چلاتا تھا لاریب کہ یہاں مہاجروں کی اکثریت بستی تھی لیکن اس کشادہ اور فراخ دل شہر نے ملک کے ہر حصے سے آنے والوں کو جگہ دے رکھی تھی۔ کسی عصبیت اور تنگ نظری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ سیاسی دانش مندی اس درجے کی تھی کہ کہا جاتا تھا کہ کراچی آج جو سوچتا ہے، برسوں بعد وہی کچھ پورا ملک سوچتا ہے۔ اس شہر نے اپنا وزن ہمیشہ جمہوری قوتوں کے پلڑے میں ڈالا۔ آمریت جنرل ایوب خان کی ہو یا بھٹو کی، کراچی نے اعلانیہ ان آمریتوں کے خلاف تحریک چلائی۔ یہ ادا کراچی کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابلِ برداشت ہوئی اور نہایت مہارت اور چالاکی سے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے عہد آمریت میں پورے شہر کو ایک لسانی تنظیم کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ کراچی کی محرومیوں کا کبھی درد مندی سے احساس ہی نہیں کیا گیا۔ اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس شہر ناپرساں کے سیاسی اور اقتصادی حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا کہ غم و غصے اور رد عمل میں وہ کچھ ہوا کہ یہ پرامن، پُرمحبت شہر مقتل گاہ بن گیا۔ دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی، پچیس تیس برسوں میں یہ شہر ہر اعتبار اور ہر پہلو سے تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اب ان واقعات کا تجزیہ کیا کرنا اور ذمہ داری کا قلاوہ کس کی گردن میں ڈالا جائے، اس کا تعین بھی کیا کرنا، سچی بات فقط اتنی ہے کہ کراچی وہ کراچی نہ رہا۔ ذہین شاہ تاجی جیسے صوفیوں کا ڈاکٹر منظور احمد جیسے دانش وروں کا، اداکار وحید مراد اور ندیم و محمد علی جیسے ایکٹروں کا، مہدی حسن اور مجیب عالم جیسے اداکاروں کا، اصلاح الدین اور میاں داد جیسے ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کا۔ اور تو اور عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی جیسے محبت و ایثار کے پتلے اور انسانیت کا سچا درد رکھنے والے کا، شیر بازمزاری، مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر عبدالغفور اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسے سیاست دانوں کا اور تو اور ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی رکھنے والے شہریوں کے شہر کراچی کا کئی دہائیوں تک کوئی والی وارث نہ تھا، یہ یتیم و لاوارث بچے کی طرح ٹھوکروں پہ ٹھوکریں کھاتا، بے یارو مددگار اپنے ہی زخموں کو کرید کرید کر اپنے ہی لہو میں شرابور ہوتا رہا۔ خداوند تعالیٰ کا کرم ہے کہ کراچی کا حالیہ ماضی ایک ڈرائونے خواب کی طرح بکھر تو گیا ہے لیکن حالات معمول پہ آنے کے بعد سوچنے بیٹھو تو کراچی لگتا ہی نہیں کہ وہ کراچی ہے۔ نہ وہ شخصیتیں رہیں، نہ وہ ماحول رہا، نہ وہ علمی ادبی دلچسپیاں رہیں، نہ وہ رونقیں ہی رہیں کہ دل میں ذہن میں، سارے وجود میں نشاط کی کیفیت پیدا ہو۔ ماضی کو یاد کرو تو ایک حُزن و ملال کی کیفیت رگ و پے میں دوڑ جاتی ہے۔ احمد جاوید اور سجاد میر صاحبان بھی کراچی سے لاہور منتقل ہو گئے۔ انسان بھی خوب ہے ہر قسم کے حالات سے خواہ ابتر و بدتر ہی کیوں نہ ہو، سمجھوتا کر لیتا ہے۔ ہم کراچی والوں نے بھی اپنے بدلے ہوئے حالات سے صلح کر لی ہے لیکن سجاد میر صاحب کی اس دعا کے باوجود کہ اے خدا! پچھلا کراچی مجھے لوٹا دے، ویسا کراچی اب کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ شہر سڑکوں اور عمارتوں کا نام نہیں ہوتا۔ وہ مہکتا اور دمکتا ہے تو اپنے باسیوں سے، پہچانا جاتا ہے تو اپنے ادیبوں، دانش وروں اور فنکاروں سے۔ ان ہی کی سرگرمیوں سے وہ تہذیب جنم لیتی ہے جس میں اختلاف فکر و نظر کو ایک برکت سمجھا جاتا ہے۔ ’’مجھے آپ سے اختلاف ہے، میرے خیال میں حقیقت وہ نہیں جو آپ پیش کر رہے ہیں‘‘۔ اس نوع کے بیانیے سے شہر جمہوری اور تہذیبی کہلاتا ہے۔ افسوس کہ وہ سب کچھ بڑی حد تک مٹ گیا۔ مگر مٹنے اور سمٹنے کے باوجود آج بھی ڈاکٹر معین الدین جیسے محقق کے گھر پہ اتوار کے اتوار ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کی محفل پابندی سے جمتی ہے۔ جب بھی میں اس محفل میں شرکت کرتا ہوں، کراچی اپنے زندہ ماضی کے ساتھ نگاہوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ حلقۂ ارباب ذوق کی محفلیں یاد آنے لگتی ہیں اور پھر چونک کر یہ بھی یاد آ جاتا ہے کہ آج بھی ہر سال عالمی اردو کانفرنس ہوتی ہے۔ اب بھی بیچ لگژری ہوٹل میں لٹریچر فیسٹول ہر برس دھوم دھام سے ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے شعراء اور ادباء شریک ہوتے ہیں۔ ادبی و علمی دنیا کی وہ گہما گہمی جو سال کے سال ہوتی ہے، پہلے ہر صبح کے طلوع ہوتے ہی شروع ہو جاتی تھی۔ مگر ماضی کو رونے سے بہتر ہے کہ ہم حال پر توجہ دیں تا کہ ہم نسل نو کے لیے ایک بہتر، مہذب اور پرامن شہر کراچی کی صورت میں چھوڑ جائیں۔ جئے کراچی۔