پھولوں کا شہر پشاور ایک بار پھر المناک سانحہ سے دوچار ہوا ہے۔ پولیس لائنز مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے والے نمازیوں پر بدبخت دہشت گرد نے خودکش حملہ کیا ، 100 کے قریب نمازی شہید ہوئے جبکہ 157زخمی ہوئے ہیں ان میں سے بھی کئی متاثرین بری طرح زخمی ہیں۔ایسے سانحات میں بچ جانے والوں کی زندگیاں بھی کتنے عرصے تک نارمل نہیں ہو سکتیں۔عدم تحفظ کا عفریت صرف ان کی نہیں ان سے جڑے رشتوں کی زندگیوں کو بھی متاثر کرتا ہے بلکہ بد امنی کے موسم میں یہ عدم تحفظ کا جان لیوا احساس ہر پاکستانی کی زندگی پر اپنا زرد سایہ ڈالتا ہے۔جو اس سانحے میں جان سے گئے ان کے گھرانوں پر کیسی قیامت ٹوٹی اس دکھ اور اذیت کو بیان کرنا مشکل ہے۔ پولیس لائنز مسجد دھماکے سے پہلے بھی خیبر پختونخوا کے شہر کوہاٹ سے بہت افسوسناک خبر آئی تھی ۔اس سانحے کو اتنی توجہ نہیں مل سکی جتنی ملنی چاہئے تھی۔ ایک مدرسے کے بچے تفریحی دورے پر تاندا ڈیم گئے۔ ایک ہی کشتی میں چالیس سے زیادہ لوگ سوار ہوگئے اور زیادہ وزن کی وجہ سے کشتی ڈوب گئی، انتہائی افسوسناک حادثہ ہوا۔ منتظمین کی نااہلی اور غلط فیصلے کی وجہ سے 30طالبعلم جان سے چلے گئے۔ملک میں کوئی پوچھنے والا ہے کہ کس نے یہ تفریح کا پروگرام بنایا۔مدرسے کے بچوں کو تفریح کے لیے لے جانے والوں نے اس بات کو یقینی کیوں نہ بنایا کہ کشتی کا سفر محفوظ ہو ،کشتی میں چالیس سے زیادہ لوگ کیوں سوار ہوئے ؟ایک سنگین غفلت اتنے بڑے حادثے کا باعث بنی۔ بچے تو تفریح کرنے گئے مگر واپسی پر ان کے بے جان وجود گھروں کو آئے۔متاثرہ گھرانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس موسم میں اکثر سکول اور کالج دوسرے شہروں میں تفریحی دورے کے لیے جاتے ہیں۔ سیر و تفریح کا پروگرام بنانے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔بچوں کے سکول کے تفریحی دوروں کو محفوظ تر بنانے کے لیے بھی محمکہ تعلیم کو کوئی اصول اور قواعد نافذ کرنے چاہیں۔ سانحہ پولیس لائنز پشاور اور سانحہ کوہاٹ دونوں۔ مختلف نوعیت کے حادثات ہیں اور ان پر تحقیق کی سمت بھی مختلف ہو گی لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حادثہ ہونے کے بعد چند روز تک ہاہاکار مچتی ہے اس کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔آج تک نہیں سنا کہ حادثے کے ذمہ داروں کو سزا دی گئی ہو۔ آج کالم میں سوائے اسی بات کا رونا رونے کے اور کچھ نہیں ہے دوسرا مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ غریب اور سفید پوش پاکستانی کو پہلے ہی روکھی سوکھی مشکل سے میسر ہے۔ ایک متوسط پاکستانی جو پہلے زندگی کو کچھ طریقے سے گزار رہا تھا مہنگائی کی اس خوفناک اور غیر فطری رفتار نے زندگی اس کے لئے بھی بوجھل کر دی ہے۔پٹرول کے نرخ 35 روپے لٹر بڑھنے سے ضروریات زندگی کی ہر شے کو پر لگ گئے ہیں ،ہر چیز آسمانوں کو چھو رہی ہے۔آٹے جیسی بنیادی چیز مارکیٹ میں نایاب ہوچکی ہے۔قطاروں میں لگنا پڑتا ہے ،قطاروں میں لگ کر بھی معیاری آٹے کا حصول ممکن نہیں۔سنا ہے کہ اب گھی بھی مارکیٹ میں نایاب ہوتا جا رہا ہے۔کیونکہ کچھ لوگ آنے والے وقت کے ڈر سے زیادہ گھی خرید کر رکھنا چاہتے ہیں۔ دو مہینے کے بعد رمضان کی آمد ہے اور رمضان کی آمد کے ساتھ ہی خیر سے ہمارے مسلمان بھائی ہر چیز کی قیمت دگنی کر دیتے ہیں۔بے روزگاری، غربت اور بھوک کے ہاتھوں آپس کے تعلقات بھی بگڑ جاتے ہیں اور یہ جو خبریں آتی ہیں کہ فلاں شخص نے خودکشی کرلی بیوی بچے بھی مار دیے تو اس کے پیچھے پوری کہانی ہوتی ہے۔غربت، بھوک، بے بسی اور بے روز گاری اس معاشرے میں انسان پر قیامت ڈھا دیتے ہیں جہاں اہل زر و اہل اقتدار بے حس ہوں۔ انہیں عام پاکستانی کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہ ہو۔ سیاسی سرکس تو جوں کا توں جاری ہے اور کسی سیاسی جماعت کو عوام کی پروا نہیں، پی ڈی ایم کا ٹولہ جو وفاقی حکومت میں ہے اس وقت وہ ناکام ہو چکا ہے۔ان حالات میں اہل سیاست میں سخت بے حسی اور سنگدلی پائی جاتی ہے اور سیاسی سرکس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے بھرپور سیاسی داؤ پیچ آزمائے جارہے ہیں ۔اس صورت حالات میں مریم نواز شریف کی پاکستان آمد ہوئی ہے۔اور جناب کیا آمد ہوئی ۔ سوچتی ہوں سکرپٹ رائٹر بھی انتہائی سنگدل اور بے حس ہے۔ انہیں جس کو زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ایسے لایا گیا جیسے ایک ریاست کی شہزادی تشریف لارہی ہو۔اس پر سونے کا تاج پہنا کر گھٹیا ڈرامہ سٹیج کیا گیا۔ان حالات میں جب کہ لوگ بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کر رہے ہوں ۔یہ کسی احساس سے عاری ذہن کی اختراع ہو سکتی ہے ۔مریم نواز کو سونے کا تاج پہنایا جائے اگر ان میں واقعی احساس کی کچھ رمق ہوتی تو وہ سونے کا تاج پہننے سے انکار کر کے میلہ لوٹ سکتی تھیں۔ بہرحال حالات و واقعات کے تناظر میں ان کا سیاسی کردار جو بھی رہا وہ دراصل اپنے والد کی خاطر تھا ۔ اب تک مریم نواز شریف کی سیاست اپنے والد کو رہائی دلانے اور اپنے والد میاں نوازشریف کو ہر طرح کی آسودگی بہم پہنچانے کے گرد گھومتی ہے ۔پانامہ کیس کے بعد سے مریم نواز شریف سیاست میں ان ہوئی ہیں لیکن اب بھی کبھی وہ پر اسرار خاموشی میں چلی جاتی ہیں ،کبھی جلسوں سے خطاب فرمانے لگتی ہیں۔ کبھی وہ ملک کے طول و عرض میں عوامی رابطہ مہم پر چلی جاتی ہیں اور کبھی خود کو جاتی عمرہ تک محدود کر لیتی ہیں۔ مریم نواز کے حق میں لکھنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے حصے کی تکلیف دیکھی ہے، انہوں نے جیل بھی کاٹی ہے اور نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی میں اپنے جلسوں اور تقریروں سے جان ڈالے رکھی ہے۔ عوامی رابطہ مہم بھی بڑی کامیابی سے چلاتی رہی ہیں۔اس سے زیادہ ان کے کریڈٹ پر کیا ہے ؟ سچ ہے کہ وہ زمینی حقائق سے دور ایک شہزادی کی زندگی جیتی ہیں ،جنہیں خبر نہیں کہ پاکستان کی ایک عام عورت اپنے خستہ حال مکان میں بیٹھ کر بچوں کو ایک وقت کی روٹی کھلانے کے لئے لیے اذیت کے کونسے صحرا سے گزرتی ہے۔