حکومت نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جا رہی ہے۔ ان کے اثاثے اور رفاہی ادارے بھی سرکاری کنٹرول میں لے لئے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کا کوئی تعلق عالمی دبائو یا بھارتی درخواست سے نہیں ہے۔ اگرچہ ایک اخبار نے اپنی دوسری بڑی سرخی یہ جمائی ہے کہ بھارت مخالف تنظیموں کے اثاثے‘ اکائونٹس ‘ گاڑیاں ضبط کرنے کا حکم۔‘‘ اچھی بات ہے کہ اس بار فیصلہ کن کارروائی ہو گی۔ ماضی کی حکومت نے نیم فیصلہ کن کارروائی کا محض عندیہ ہی دیا تھا‘ وہ بھی ڈرتے ڈرتے‘ جان کی امان پائوں کے انداز میں تو ڈان لیکس کا پھندا گلے میں پڑ گیا اور پھر ’’جان‘‘ لے کر ہی ہٹا۔ لیکن ہٹا کہاں‘ محض ڈھیلا ہی ہوا۔عالمی دبائو تو خیر ہے ہی نہیں۔ کل ہی ایک ٹی وی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتا رہا تھا کہ دنیا بھر سے ہمارے ساتھ رابطے ہوئے ہیں اور ہم نے سب کو بتا دیا ہے کہ ہم بھارت سے امن چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے‘ یہ رابطے تھے‘ انہیں دبائو تو نہیں کہا جا سکتا۔ رابطہ کار ہم سے اچھی بات سننا چاہتے تھے‘ ہم نے اچھی بات بتا دی اور بس۔ کالعدم تنظیموں کے رفاہی ادارے بھی ضبط کر لئے گئے ہیں۔ مطلب رفاہی سرگرمیاں بھی ترقیاتی کاموں کی طرح بند۔ جو نئے ملک کی صحت کے لئے اچھی نہیں۔ اسے بند ہونا چاہئے چاہے سرکاری شعبے میں ہو چاہے نجی شعبے میں۔ تھر سے بلوچستان تک‘ کشمیر سے چولستان تک جتنے بھی رفاہی خیراتی امدادی کام کرتے تھے۔ اب صیغہ ماضی ہوئے۔اثاثے کہاں جائیں گے؟ ظاہرہے ان کے دام کھرے کئے جائیں گے‘ ان کھرے داموں سے قومی خزانہ بھرا جائے گا۔ قومی خزانے میں عرصہ سات ماہ سے ایک پراسرار شگاف نمودار ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شگاف لاہوت لامکاں کی طرف جاتا ہے۔ خزانے میں جتنی رقم ڈالی جاتی ہے‘ اس شگاف کے راستے لاھوت لامکاں منتقل ہو جاتی ہے۔ رفاہی اداروں کے اثاثوں کی رقم بھی وہیں کے لئے رخت سفر باندھے گئی۔ اور کہاں جائے گی۔ لاھوت لامکاں کی خیر۔ ٭٭٭٭٭ ایک وزیر با تدبیر نے فرمایا‘ مودی کا شکریہ ‘ ان کی حماقتوں سے مسئلہ کشمیر پھر سے عالمی مسئلہ بن گیا۔مبارک ہو۔ لیکن یہ وقوعہ کہاں اور کب وقوع پذیر ہوا۔ یہ تو ایک آپ نے بتایا ہی نہیں۔ کیا امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کو کہا؟ کیا چین نے بات کی؟ روس نے کی‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کی؟ یورپی یونین نے کی؟ کس نے کی۔ یورپی یونین تو کھل کر بھارتی موقف کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے۔ باقی ملک بھی جتنے ہیں‘ سب تنازعہ حل کرنے اور کشیدگی دور کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ صرف یہ ہوا کہ اسلامی کانفرنس کی وزرائے خارجہ بیٹھک میں کشمیر پر قرار داد منظور ہوئی۔ اچھی بات ہے لیکن منظور ہونے کے بعد یہ کہاں گئی؟ اس کا اتہ پتہ مشترکہ اعلامیے سے کیوں نہیں ملتا۔ اسلامی کانفرنس کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مشترکہ اعلامیے سے کشمیر کا ذکر غائب ہو گیا۔ چاہے تو آپ اسے بھی اپنی عظیم سفارتی کامیابیوں کے علم پر چڑھا دیں۔ کون روک سکتا ہے۔ اسلامی کانفرنس نے کشمیر پر قرار داد پاس کی۔ ہمارا دل رکھا‘ پھر مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے بھارتی پاسخاطر کا اہتمام کیا۔ بھارت جو اس کانفرنس کا مہمان خصوصی تھا اور پاکستان جو اس کانفرنس کا مہمان عمومی بھی نہیں تھا۔تازہ بیان متحدہ عرب امارات کے وزیر کا بھی دیکھ لیا ہو گا۔ وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد النہیان نے امید ظاہر کی ہے کہ اسلامی کانفرنس بھارت کو اپنی صفوں میں قبول کر لے گی۔امارات کی خارجہ پالیسی کے پیچھے کون کھڑا ہے؟ مودی صاحب کا بردار خورد! ٭٭٭٭٭ امن کی بات اب غیر متنازعہ طور پر حب الوطنی ہے۔ یعنی نظریہ پاکستان نامی کتاب کا تصحیح شدہ ایڈیشن قومی نصاب کا حصہ بن چکا ہے۔نئے نصاب کے تحت امن کی بات مودی سے یاری ہے نہ قوم سے غداری۔ نظریہ پاکستان کا ترمیم و تصحیح شدہ ایڈیشن کب تک مارکیٹ میں رہے گا‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ امید کرنی چاہیے کہ یہ ’’حتمی‘‘ ایڈیشن ہو گا۔شاید کہیں سے یہ وضاحت بھی آ جائے کہ نیا نصاب موثر بہ ماضی بھی ہو گا کہ نہیں۔ مطلب یہ کہ جو اصحاب سال گزشتہ تک مودی کے یار اور قوم کے غدار تھے۔ ان کی بریت ہو گی۔ یا وہ بدستور غدار ہی رہیں گے؟ ٭٭٭٭٭ حکومت سیاسی ہو تو مشکل بلکہ ناممکن کام بھی کر ڈالتی ہے اور عمرانی حکومت مہا سیانی نکلی ہے۔ پنجاب میں سرکاری ہسپتال خزانے پر بوجھ تھے‘ اب اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کا پکا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ یوں کہ ہنگ پھٹکری لگانے کی ضرورت بھی نہیں۔ ایسی ترکیب کی گئی ہے کہ یہ خود ہی بند ہو جائیں گے۔ہسپتالوں میں ہر طرح کا علاج اور سرجری کئی گنا مہنگی کر دی گئی ہے۔ جو علاج ہزاروں روپے میں ہوتا تھا‘ اب لاکھوں میں ہو گا۔ ہر طرح کے ٹیسٹ بھی چار پانچ گنا مہنگے کر دیے گئے ہیں اور یہ نرخ نجی اداروں سے بھی زیادہ ہیں۔سامنے کی بات ہے‘ اب سرکاری ہسپتالوں میں کون آئے گا۔ جب نجی ہسپتال سرکاری سے سستے ہوں گے تو مریض ادھر ہی جائیں گے۔کیا کمال کی کاریگری ہے۔ ریاست مدینہ جدید کی سیاست کاری کا جواب نہیں۔ ٭٭٭٭٭ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ چھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 78فیصد کمی ہو گئی ہے جبکہ مہنگائی اور افراط زر کی شرح 8.2فیصد ہو گئی ہے۔ عوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔عوام کی مشکلات کا پروا نہ کیجیے۔ ’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘۔ والے فارمولے پر عمل کر کے راہ نجات ڈھونڈ لیں گے۔ سرمایہ کاری میں جو کمی ہو رہی ہے‘ لگتا ہے کہ آپ اس کی رفتار سے مطمئن نہیں۔ دو چار ماہ اور انتظار کر لیجیے۔ باقی 22فیصد کی کسر بھی نکل جائے گی۔ آپ یہ بتائیے ‘ عمرانی حکومت سے اندر ہی اندر جو مصالحت کاری چل رہی ہے‘ بڑے بھائی کی قیمت پر‘ وہ کہاں پہنچی ؟