وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ شفاف انکوائری کے بعد طیارہ حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ طیارہ حادثے کی شفاف اور غیر جانبدار انکوائری اور واقعے سے جڑے حقائق کو منظر عام پر لانے میں کوئی کسر روا نہ رکھی جائے۔ لاہور سے کراچی جانے والی پی آئی اے کی پرواز کے حادثے میں 100کے قریب افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔ ابھی تک نعشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے ،جب تک لواحقین کواپنے پیاروں کی نعشیں نہیں مل جاتیں تب تک ان کا کرب اور دکھ کم نہیں ہو گا۔ پاکستانی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ پہلا حادثہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل کئی فضائی حادثات رونما ہو چکے ہیں مگر بدقسمتی سے آج تک کسی بھی سانحہ کے بارے میں یہ علم نہیں ہو سکا کہ یہ سانحہ کس کی غفلت اور لاپرواہی سے پیش آیا ۔کیونکہ آج تک کسی بھی سانحہ کی رپورٹ سامنے نہیں آئی، جب رپورٹ منظر عام پر نہیں آئے گی تو پھر مستقبل میں ایسے جان لیوا حادثات سے بچنا مشکل ہو گا کیونکہ ماضی کی غلطیوں کو دیکھ کر ہی مستقبل میں سفر کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔پوری دنیا میں حادثات سے بچائو کے لئے ایسے ہی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ہمیشہ ایسی تحقیقاتی رپورٹس کو دبا دیا جاتا ہے۔14اگست 1947ء سے لے کر 22مئی 2020ء تک پاکستان کی حدود میں 83فضائی حادثات پیش آئے ہیں ان حادثات میں کم و بیش 11سو کے قریب افراد جاں بحق ہوئے ،جن میں صدر پاکستان سے لے کر ججز اور پاک افواج کے جرنیل بھی شامل ہیں۔ ہر حادثے کے بعد ارباب اقتدار میڈیا پر آ کر قوم کو تسلیاں دیتے ہیں کہ ذمہ داروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا جبکہ فضائی کمپنیوں کے مالکان اور افسران چند دنوں میں غفلت کے مرتکب افراد کے نام سامنے لانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن جیسے ہی جاں بحق افراد کی میتوں کی ان کے لواحقین کو حوالگی کا سلسلہ مکمل ہوتا ہے حکومتی افراد اس ایشو پر بات چیت کرنا بند کر دیتے ہیں اور فضائی کمپنی کے افسران بھی پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ فضائی کمپنیوں کے زیر استعمال جہازوں کی انشورنش ہوتی ہے یوں جاں بحق افراد کے لواحقین کو انشورنش سے پیسہ دے کر انہیں بھی تسلیاں دی جاتی ہیں ۔ در حقیقت ہوا بازی کے شعبے میں ایسی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو حادثات کی تحقیقات پر اثر انداز ہوتی ہیں، مختلف گروپ بنے ہوئے ہیں ،ہر گروپ کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے افراد کو بچا کر دوسروں پر ملبہ ڈالا جائے۔اگر جہاز میں کسی قسم کا نقص ہو اور وہ حادثے کا شکار ہو جائے تو ٹیکنیکل شعبے کی کوشش ہوتی ہے کہ اس حادثے کو پائلٹ کی غلطی قرار دیا جائے۔ اسی بنا پر پالپا اور پی آئی اے انتظامیہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔اکثر اوقات تحقیقی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جاں بحق پائلٹ پر سارا ملبہ ڈال کر باقی افراد کو کلین چٹ دے دیں کیونکہ پائلٹ نے کب آ کر انہیں بتانا ہے کہ اس میں اس کا قصور نہیں ہے۔ حالیہ حادثے میں بھی ایئر ٹریفک اور اپروچ کنٹرولر نے سارا ملبہ پائلٹ پر ڈال دیا ہے۔ اپروچ کنٹرولر کے مطابق کپتان نے لینڈنگ سے 10ناٹیکل میل پر دی گئی ہدایات کو نظر انداز کیا۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس بنا پر آج تک کسی بھی حادثے کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی کیونکہ ہر کوئی شہید پائلٹ پر ملبہ ڈال کر اپنی خلاصی چاہتا ہے۔ اسی بنا پر وزیر اعظم عمران خان کے اس اعلان کی خوب پذیرائی ہوئی ہے کہ نہ صرف حالیہ حادثہ بلکہ اس سے پہلے ہونے والے حادثات کی رپورٹیں بھی منظر عام پر لائی جائیں گی۔ تحقیقاتی اداروں کو بدقسمت طیارے کا کاک پٹ وائس ریکارڈ مل گیا ہے جبکہ اس سے قبل باقی شواہد بھی انتظامیہ کے پاس موجود ہیں ،جس کے بعد اب ذمہ داروں کا تعین کرنا مشکل نہیں ہو گا۔پی آئی اے کے طیارے زیادہ تعداد میں حادثے کا شکار کیوں ہوتے ہیں اس کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔پی آئی اے کے 12حادثات کی رپورٹس کو منظر عام پر لا کر اس بات کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ایک دور تھا جب لوگ فخر کے ساتھ اس قومی ایئر لائن پر سفر کرتے تھے لیکن اب لوگ اس پر سفر کرنے سے کتراتے ہیں۔ موجودہ حکومت اگر ماضی کی رپورٹس کو منظر عام پر لا کر ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دیتی ہے اور مستقبل کے لئے ان رپورٹس کی روشنی میں ایئر پورٹس اور طیاروں میں اصلاحات لاتی ہے تو ایک عام آدمی کا اس ایئر لائن پر اعتماد قائم ہو گا۔ ہوائی سفر کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس سفر کے ساتھ منسلک تمام اداروں کی آرا کی روشنی میں ہوا بازی کی صنعت میں تبدیلیاں لائی جائیں۔ عوام کو جب اس بات کا یقین ہو گا کہ ہوائی سفر محفوظ ہے تو وہ لازمی طور پر قومی ایئر لائن کا انتخاب کریں گے اب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو کیسے بحال کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کمیشن بنا کر ماضی کی لوٹ مار اور کک بیکس کے ذریعے عوام کی جیبوں پر ڈالے جانے والے ڈاکے کی رپورٹس منظر عام پر لا رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ پی آئی اے کے وقار کو بحال کرنے اور اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے بھی کسی قسم کی رعایت نہیں برتیں گے۔