معزز قارئین!۔ 11 اکتوبر کے قومی اخبارات میں ، دامادِ میاں نواز شریف ، کیپٹن (ر) محمد صفدر کے حوالے سے ایک بیان شائع ہُوا تھا کہ ’’ مولانا فضل اُلرحمن ، آزادی مارچ کے دُولھا ؔہیں اور ہم اُن کے ساتھ ہیں‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ مسلم لیگ (ن) کے تمام راہنما ، میاں نواز شریف کی قیادت میں ایک "Page" (صفحہ) پر ہیں اور جیل میں میاں نواز شریف اور مریم نواز بڑے حوصلے میں ہیں اوراُن کے ذہن میں "Clear" ہے کہ ’’ ہم نے آزادی مارچ میں شرکت کرنا ہے اور وہ سب تین بار ’’ قبول ہے ۔ قبول ہے ۔ قبول ہے ‘‘ بھی کہہ چکے ہیں ‘‘۔ دوسرے روز لاہور میں احتساب عدالت میں پیشی کے بعد مسلم لیگی کارکنوں اور میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے نااہل اور سزا یافتہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’ مَیں آزادی مارچ کی حمایت کرتا ہُوں اور مَیں نے صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف خط لکھ کر ہدایات جاری کردِی ہیں ‘‘لیکن، پھرکیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ’’آزادی مارچ سے متعلق حکمت ِ عملی کے بارے میں میاں نواز شریف کے بجائے میاں حسین نواز اپنے والد صاحب (میاں نواز شریف) کے پیغامات مولانا فضل اُلرحمن صاحب کو پہنچایا کریں گے ‘‘۔ کیپٹن (ر )محمد صفدر کے اِس بیان کے بعد تو، یہ ظاہر ہُوا کہ آزادی مارچ کے دُولھاؔ ، فضل اُلرحمن صاحب کے شہبالاؔ (میاں محمد نواز شریف کا اپنا بیٹا) حسین نواز ہوگا ، جو کل تک اپنے خاندان کا غیر سیاسی کردار تھا؟۔اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ’’ سزا یافتہ میاں نواز شریف نے نہ صِرف مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے میاں شہباز شریف کو مفلوج کردِیا ہے بلکہ (فی الحال ) نائب صدر اپنی دُختر ِ نیک اختر مریم نواز کے اختیارات کو بھی؟۔معزز قارئین!۔ ابھی سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے 5 جج صاحبان کی طرف سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت صادقؔ اور امینؔ نہ ہونے پر نااہل قرار نہیں دِیا گیا تھا کہ ’’ جب 4 جولائی 2017ء کو حسین نواز ’’جے ۔ آئی ۔ ٹی ‘‘(Joint Investgation Team) کے رُو برو پیش ہُوئے تو ، کمرے کے اندر اور باہر یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ … ’’تیری آواز، میری آواز، مریم نواز، مریم نواز!‘‘ سوال یہ ہے کہ ’’ اب اپنے دَور کی ’’بے نظیر بھٹو ‘‘ بننے کی خواہش مند مریم نواز کا کیا ہوگا؟۔ معزز قارئین!۔ بہرحال اب یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ ’’ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف تو، اپنی کمر کے درد کی وجہ سے اب آزادی مارچ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرنے کے اہل ؔنہیں رہے؟۔ مَیں ایک بار میاں صاحب کے کمر کے درد کے بارے میں لکھ چکا ہُوں کہ ، پنجابی کے نامور صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخشؒ نے، کمر کے درد کو ’’چُکّ‘‘ بیان کرتے ہُوئے کہا تھا / ہے کہ … لوکی آکھن ، پِیڑ لکیّ دِی، کوئی آکھے چُکّ ! وِچلّی گل اے محمد بخشا! اندروں گئی اے مُکّ! …O… ’’دُولھا اور شہ بالا!‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں حیران ہُوں کہ کیپٹن ( ر) محمد صفدر خود شادی شدہ ہے اور اُن کا بیٹا اور بیٹی بھی شادی شدہ ؟ لیکن ’’قبول ہے۔ قبول ہے ۔ قبول ہے ‘‘ کا مرحلہ تو اُس وقت آتا ہے جب دُولھا باراتیوں کے ساتھ باجے گاجے کے ساتھ اپنے گھر سے رُخصت ہو کر ، دُلھن کے گھر جاتا ہے ، جہاں گھر والے اپنے ہونے والے سمبندھیوں کا استقبال کرتے ہیںاور اُنہیں عزّت واحترام سے بٹھاتے ہیں ، پھر اپنی اپنی برادری کی روایات کے مطابق رسومات ادا کی جاتی ہیں اور دُلھن والے قاضی صاحب کو دُلھن کے کمرے میں لے جاتے ہیں اور دُلھن سے دُولھا اور اُس کے والد صاحب کا نام لے کر اُس سے پوچھتے ہیں کہ’’کیوں بیٹا! تمہیں فلاں ابن ِ فلاں بطور شوہر کے قبول ہے ؟ تو، دُلھن ۔ شرماتے ہُوئے ۔ تین بار ۔ ’’ قبول ہے ۔ قبول ہے ۔ قبول ہے ‘‘ کہتی ہے۔ پھر شادی ہو جاتی ہے؟۔ اور ہاں!۔ اِس سے پہلے ۔ بارات کی روانگی سے پہلے دُولھا کے گھر جشن کا ماحول ہوتا ہے اور اُس کی ہمشیرگان (پنجاب میں تو) اپنے بھائی دُولھا پر ’’ صدقے واری‘‘ جاتے ہُوئے اِس طرح کا گیت گاتی ہیں کہ … ’’دیسا دا راجا، میرے بابل دا پیارا، امبڑی دے دِل دا ، سہارا! نی وِیر میرا ،گھوڑی چڑھیا، گھوڑی چڑھیا نی سیّو ، گھوڑی چڑھیا!‘‘ لیکن، پنجابی میں ایک اکھان یہ بھی تو ہے کہ … اُوہ دِن ڈُبّا ، جدوں گھوڑی چڑھیا کُبا! کیا عبرت ناک صورت حال ہے کہ ’’ تین بار وزارتِ عظمیٰ کا جھولا جھولنے والے (سابق اور نااہل وزیراعظم) کے پاس پاکستان مسلم لیگ کے نام سے قائم کی گئی سیاسی جماعت میں ایک بھی ایسا "Leader" نہیں ہے جو، مسلم لیگ کے نام کو پھر سے زندہ کرسکتا؟۔ دراصل یہ مسلم لیگ مرحوم صدر جنرل ضیاء اُلحق کی پیداوار ہے ، جو (اُن دِنوں) پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت کرتے تھے ۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ یا اللہ!۔ میری عُمر بھی نواز شریف کو لگا دیں‘‘۔ پھر یہ دُعا قبول ہوگئی تھی اور کئی سال تک میاں نواز شریف کہا کرتے تھے کہ ’’ مَیں صدر جنرل ضیاء اُلحق کا مِشن پورا کروں گا‘‘ لیکن، وہ مِشن کیا تھا ؟ موصوف نے کسی کو نہیں بتایا؟۔پھر یوں ہُوا کہ ’’ وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے ، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کہنا شروع کردِیا تھا ۔ جو اپنے ’’روحانی والد ‘‘ جنرل ضیاء اُلحق سے سراسر بے وفائی تھی / ہے؟۔ صدارتی دُولھا؟ 4 ستمبر 2018ء کو پاکستان میں صدارتی انتخاب تھا۔ اِس انتخاب میں باری باری مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے ( میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ) نے قائداعظمؒ سے بھی بے وفائی کی جب ، اُنہوں نے ہندوئوں کی مُتعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے بنیا قوم کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی ؔ کے چرنوں میں بیٹھنے والے کانگریسی مولویوں کی باقیات فضل اُلرحمن صاحب کو اپنی مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کِیا تھا؟۔ یہ بات "On Record" ہے کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب کے والدِ (مرحوم) مفتی محمود صاحب نے قیام پاکستان کے بعد کہا تھا کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ معزز قارئین!۔2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں صدر جنرل محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ مادرِ ملّت متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں لیکن، مفتی محمود صاحب نے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ اسلامی جمہوری مملکت میں کوئی عورت سربراہ نہیں بن سکتی‘‘۔ پھر یوں ہُوا کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے طور پر ’’ اجتہاد ‘‘ کرلِیا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ میں اُن کے حلیف رہے۔ اُس دَور کے وفاقی وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر نے میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے تو ، محترمہ وزیراعظم سے یہ کہہ دِیا ہے کہ ’’ خواہ آپ سیٹ بینک آف پاکستان کی چابیاں بھی فضل اُلرحمن صاحب کے سپرد کردیں ، اُن کا پیٹ نہیں بھرے گا‘‘۔ اِس پر صحافیوں نے فضل اُلرحمن صاحب سے پوچھا کہ ’’ مولانا صاحب!۔ وزیر داخلہ نے آپ کی توہین کی ہے ۔ آپ اُن پر ہتک ِ عزّت کا مقدمہ کب کر رہے ہیں؟ ‘‘تو فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دِیا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں تو، فضل اُلرحمن صاحب قومی اسمبلی سے باہر پہنچ گئے؟ پھر نہ جانے کس کی شہ پر اُنہوں نے اسلا م آباد کی طرف آزادی مارچ کا رُخ کرنے کا فیصلہ کرلِیا ہے ؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے نہ جانے اپنی ایک نظم میں کسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … دُولھا ہے تو، نجوم کی محفل ، برات ہے ! عام طور پر ایسے ہوتا کہ ’’ جب دُولھا کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو، باراتی بھاگ جاتے ہیں ۔پنجابی اکھان کے مطابق… ’’اگے تیرے بھاگ ، لچھیئے!