معزز قارئین!۔ 14 اکتوبر2019ء کو ’’ امیر جمعیت عُلماء اسلام‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) کے والدِ محترم مفتی محمود صاحب کی 39 ویں برسی ہے اور پہلی بار فضل اُلرحمن صاحب چاہتے تھے کہ اُن کے والد کی برسی پر اسلام آباد میں اِن کی قیادت میں حزب اختلاف کی ساری یا کم از کم آدھی جماعتیں ( اگر ہو سکے تو اُن کے قائدین بھی ) وزیراعظم عمران خان کی حکومت ختم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں؟‘‘۔ فضل اُلرحمن صاحب نے 28 جولائی کو کوئٹہ میں اپنی ’’جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ کے عہدیداروں اور کارکنوں کے (بقول اُن ) "Million March" کے شُرکاء سے خطاب کرتے "Warning" دِی تھی کہ ’’اگر حکومت نے مارچ کے مہینے میں استعفا ء نہ دِیا تو ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ (ف) حزب اختلاف کی دوسری اتحادی جماعتوں (جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں) ، کو ساتھ لے کر اسلام آباد تک آزادی مارچ کرے گی!‘‘۔پھر میڈیا نے ’’آزادی مارچ ‘‘ کو "Million March" (دس لاکھ افراد کے مارچ ) "Lock Down" (شہر کی تالا بندی) اور ’’دھرنا‘‘ (Sit In) اور "Long March" کا نام دِیا گیا۔ شاید عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں (1934ئ۔ 1935ء میں ) سُرخ فوج کے "Long March" کی طرح۔ ’’برخوردار بلاول بھٹو!‘‘ بلاول بھٹو زرداری صاحب کا اعلان منظرِ عام پر آیا کہ ’’ اسلام آباد میں "Lock Down" یا دھرنے کا فیصلہ مولانا فضل اُلرحمن کا اپنا ہے ۔ ہماری پارٹی اِس میں شریک نہیں ہوگی البتہ ہماری طرف سے مولانا صاحب کو ہماری "Moral Support" ( اخلاقی مدد) ضرور حاصل ہوگی‘‘۔ 14 ستمبر کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے بیان میں فضل اُلرحمن صاحب نے کہا تھا کہ ’’ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اسلام آباد کے آزادی مارچ میں ہمارے ساتھ ہوں گی ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ بلاول بھٹو! میرا اپنا برخوردار ہے اور مجھے اُس کی ہر ادا قبول ہے‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے برخوردارؔ بلاول بھٹو کی اخلاقی مدد اُن کی ادا ؔسمجھ کر قبول کرلی ہے؟ ‘‘۔ معزز قارئین!۔ سندھی زبان میں تایا / چچا کو ’’ ادا ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ میاں شہباز شریف سے ملاقات؟ 15 ستمبر کو فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے آزادی مارچ پر شرکت پر آمادہ کرنے کے لئے اپنے نائبین کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز اور اُن کے نائبین سے ملاقات کی ۔ مسلم لیگ (ن) نے ’’ آزادی مارچ‘‘ پر 30 ستمبر کو اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرلِیا ہے ۔ اخبارات میں مسلم لیگ (ن) کے ایک لیڈر احسن اقبال کا یہ بیان بھی شائع ہُوا ہے کہ ’’ ملک چلانا اناڑی ؔکے بس کی بات نہیں ہے ۔ عمران خان ملک پر احسان کریں ا ور اپنے "Cousin" مولانا طاہر اُلقادری کی تقلیدؔ کرتے ہُوئے سیاست سے "Retire" ہو جائیں!‘‘۔ ’’علاّمہ طاہر اُلقادری!‘‘ معزز قارئین!۔ مَیں عام طور پر اپنے کالم کے ’’کوزے میں دریا ‘‘ بند نہیں کرتا لیکن ، کیوں نہ ؟ … ’’بارے ، علاّمہ ، کچھ بیاں ہو جائے ؟‘‘ 1993ء میں قومی اخبارات میں علاّمہ طاہر اُلقادری صاحب کا یہ بیان شائع ہُوا تھا (پھر "YouTube"پر) بھی کافی مدّت تک دِکھایا جاتا رہا۔ اپنے بیان میں القادری صاحب نے کہا تھا کہ ’’ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلیہ وَسلم نے مجھے خواب میں بشارت دِی ہے کہ’’ اے طاہر اُلقادری !۔ میر ی ؐ عمر کی طرح تمہاری بھی عُمر 63 سال ہوگی‘‘۔ اِس موضوع پر القادری صاحب کے دوستوں اور مخالفین کا تبصرہ مختلف تھا۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ ’’ 19 فروری 2014ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں کالم کا عنوان تھا کہ ’’علاّمہ طاہر اُلقادری کے دِن پورے ہوگئے‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ آج القادری صاحب کی عُمر 63 سال ہوگئی ہے لیکن، موصوف پھر بھی زندہ ہیں ؟۔ ’’علاّمہ القادری کے پائوں کی زنجیر؟‘‘ معزز قارئین!۔ ستمبر 2017ء میں علاّمہ طاہر اُلقادری لاہور ہی میں تھے جب، 8 ستمبر کو برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف نے ’’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم ’’طلوع‘‘ میں ’’ علاّمہ طاہر اُلقادری صاحب کی کینیڈین شہریت اور متلّون مزاجی کو ، اُن کے پائوں کی زنجیر قرار دِیا تھا‘‘۔ اِس پر 10 دسمبر کو مَیں نے ’’ علاّمہ طاہر اُلقادری کے ۔ ’’پائوں کی زنجیر؟‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اُن کی سیاست کی مختصر داستان بیان کی تھی۔ اب مزید مختصر بیان کر رہا ہُوں۔پاکستان میں ناکامی کے بعد علاّمہ طاہر اُلقادری نے اپنے دونوں بیٹوں ڈاکٹر حسن محی اُلدّین قادری ، ڈاکٹر حسین محی اُلدین قادری اور اپنی اہلیۂ محترمہ کے ساتھ 2006ء میں کینیڈا کی شہریت اختیار کرلی تھی۔ اِس دَوران (بقول علاّمہ صاحب) اُنہوں نے دُنیا کے 90 ملکوں میں ۔’’ ادارہ منہاج اُلقرآن ‘‘ کے دفاتر قائم کئے اور 500 سے زیادہ کتابیں بھی لکھیں ۔ اِس پر مَیں نے ایک بار لکھا کہ "Karl Marx" نے صِرف ایک ہی کتاب "Das Kapital" لکھی جس سے روشنی لے کر کئی ملکوں میں ’’ انقلاب‘‘ لایا گیا لیکن، دسمبر 2012ء میں وطن واپس آ کر علاّمہ صاحب نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا اعلان تو کِیا اور 10 جنوری سے 13 جنوری 2013ء تک بقول علاّمہ صاحب ( اُن کی قیادت میں ) اُن کے 40 لاکھ عقیدت مندوں اور کارکنوں نے ، لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کِیا ( علاّمہ صاحب نے اُسے)’’حسینی ؑمارچ‘‘ بھی کہا تھا ؟ ۔پھر صدر آصف زرداری کی ہدایت پر ، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے نمائندوں نے ، 17 جنوری 2013ء کو علاّمہ طاہر اُلقادری کے "Bullet Proof Container"میں حاضر ہو کر اُن سے مُعاہدہ کرلِیا تھا (جسے مَیں نے اپنے کالم میں) ’’ میثاقِ جمہوریت۔ 2 نمبر‘‘۔ قرار دِیا تھا ۔ اِس میثاق ؔکے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں ، پاکستان مسلم لیگ (ق) ۔ ایم ۔کیو ایم۔ عوامی نیشنل پارٹی کے با اختیار قائدین سیّد خورشید شاہ، جناب قمر زمان کائرہ، مشاہد حسین سیّد اور فاٹا کی طرف سے سینیٹر عباس آفریدی نے وزیراعظم ہائوس جا کر وزیراعظم کے وکلاء کی حیثیت سے راجہ پرویز اشرف سے اُسی انداز میں دستخط کرائے تھے جِس طرح ہمارے یہاں نکاح کے وقت دلہن کے کمرے میں جا کر اُس کے وکلاء اُس سے نکاح نامے پر دستخط کراتے ہیں۔ اِس دوران حکومتی پارٹی کی مذاکراتی ٹیم کے باقی 7 ارکان ، علاّمہ طاہر اُلقادری کے کنٹینر میں بیٹھے رہے۔ حکومت اور اُس کے اتحادی نمائندوں نے۔’’ میثاق جمہوریت ۔ 2 نمبر‘‘۔ کے ذریعے علاّمہ طاہر اُلقادری کو لاہور بھجوا دِیا ، پھر وہ کینیڈا چلے گئے۔8جون 2014ء کو علاّمہ طاہر اُلقادری نے ،ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان کے عوام سے کہا کہ ۔ ’’ میرے اور آپ کے درمیان چند دِنوں کا فاصلہ رہ گیا ہے ۔ مَیں اِسی مہینے وطن واپس آ جائوں گا، پھر اِنقلاب ؔکی جدوجہد کا آخری مرحلہ شروع ہوگا‘‘۔ 17 جون 2014ء کو ’’سانحہ ماڈل ٹائون ‘‘ رونما ہُوا۔ علاّمہ صاحب کے 14 عقیدت مند جاں بحق ہُوئے اور سو سے زیادہ زخمی بھی ہُوئے۔ اُن میں علاّمہ صاحب کا کوئی رشتہ دار شامل نہیں تھا ۔ گذشتہ دِنوں خبر آئی تھی کہ ’’ علاّمہ طاہر اُلقادری کی تقریباً ایک ہزار کتابیں چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہیں ‘‘۔ مجھے نہیں معلوم؟ کہ فضل اُلرحمن صاحب نے کوئی کتاب لکھی ہے یا نہیں؟‘‘ ۔ اُن کے پاس ’’ کینیڈین شہریت‘‘ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ’’ شیخ اُلاسلام ‘‘ کہلاتے ہیں ؟۔ موصوف پہلی مرتبہ پارلیمنٹ سے بھی غائب ہیں اور دوسری طرف جنابِ آصف زرداری اُن کی ہمشیرہ صاحبہ اور کئی ساتھی قانون کے شکنجے میں ہیں ، میاں نواز شریف اور مریم نواز سزا یافتہ ہیں اور میاں شہباز شریف کے سرپر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ اب اکیلے فضل اُلرحمن صاحب ، اسلام آباد میں کسی بھی قسم کا "March" کیسے کریں گے؟۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’ ایہہ تے کلّے بندے دا کم نئیں‘‘۔ ایک پنجابی فلمی گیت کا مُکھڑا (مطلع) ہے کہ … کلاّ بندا ہو وے ، بھانویں کلاّ رُکھ جی ! دواں کلّیاں نُوں ہوندا بڑا دُکھ جی !