یہ 2009ء کی بات ہے یورپ کے خوبصورت ملک سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا ،زندگی اپنے راستے پر رواں دواں تھی لیکن اسی شہر میں ایک سڑک پر ایک ستر سالہ بوڑھے کے لئے سب ٹھیک نہ تھا وہ قطار میں لگی گاڑیوں میں اپنی کارلگائے ہوئے بی چینی سے پہلو بدل رہا تھا اور اسکی لٹکی ہوئی پرگوشت ٹھو ڑی والے سرخ وسپید چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی اسکی تشویش کا سبب وہ سپاہی تھا جو ہاتھ میں کوئی آلہ لئے ایک ایک گاڑی کے پاس جارہاتھا یہ آلہ دارصل خون میں الکحل کی مقدار بتانے والا تھا۔ سپاہی اس بوڑھے کے پاس بھی پہنچا خوش اخلاقی سے گڈ مارننگ کہا اور وہ آلہ سامنے کردیا بوڑھے نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور پھونک ماردی مشین کی اسکرین پر ہندسوں نے حرکت کی اور خبر دے دی کہ بوڑھے کے خون میں مطلوبہ مقدار سے زیادہ الکحل ہے،سپاہی نے فورا قانون کے مطابق جرمانہ عائد کردیا اور اس سڑک پر ہونے والے اس جرمانے نے سویڈن کے اس وقت کے وزیراعظم فریڈرک رئین فلڈٹ کو پریشانی میں ڈال دیا کیوں کہ وہ ستر سالہ بوڑھا شخص برسراقتدار پارٹی کا رہنما تھا اور صرف رہنما ہی ہوتا تو شائد اسکے لئے اتنا مسئلہ نہ ہوتا وہ اسکا باپ بھی تھا،فریڈرک سویڈن کا بااثر ترین شخص تھاجسے سویڈن کی تاریخ میں چھ اکتوبر2006 ء سے 3اکتوبر 2014ء تک طویل ترین عرصے کیلئے وزیر اعظم رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وزیر اعظم کے والد پر جرمانے کی خبر آنافانا پھیل گئی ،اس مہذب معاشرے میں یہ چھوٹی بات نہ تھی یہ خبر بوڑھے برونو کے سیاسی کیرئیر پر بھی خودکش حملہ ثابت ہوئی ،حکمران پارٹی نے اس پر اس شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کے شرابی باپ کے ساتھ ان کی پارٹی کا نام اچھل رہا تھا ۔پارٹی اجلاس میں ہونیوالی تنقید کو وزیر اعظم بھی نہ رکوا سکے دباؤ اتنا بڑھا کہ وزیر اعظم کے والد کو پارٹی عہدے سے مستعفی ہونا پڑا،یہ اس ملک کے سیاسی نظام کی بہترین چھلنی تھی جس نے اس معمولی جرم کے مرتکب شخص کو بھی سیاست سے نکال باہر کیا۔ اب سویڈن کے سیاسی نظام میں لگی چھلنی کو چھوڑ کر اسرائیل کا رخ کریںجہاں نیتن یاہو وزارت عظمیٰ کا اٹھارہ ماہ سے حلف لئے بیٹھے ہیں،نیتن یاہو اسرائیلی تاریخ کے متنازعہ ترین وزیر اعظم اور باقاعدہ ملزم ہیں جانتے ہیں ان پر جرم کیا ہے ؟ ان پر بیش قیمت سگار اور شیمپئن کی بوتلوں کے تحائف وصولنے کا الزام ہے،ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوںنے من پسند خبروں کی اشاعت کے بدلے ایک اخبار کی سرکولیشن بڑھانے میں مدد کی پیشکش کی، ان پر سب سے سنگین الزام ہمارے یہاں کے شوگر اسکینڈل سے ملتا جلتا ہے کہ انہو ں نے ایک ٹیلی کام کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریگولیٹری فیصلے کئے نیتن یاہو ان الزامات کا انکار کرتے ہیں لیکن ان کے انکار سے بات نہیں بن رہی۔ اسرائیل کے سیاسی نظام کا فلٹر کام کر رہا ہے ان کی مقبولیت تیزی سے نیچے آئی ہے ،صورتحال یہ ہے کہ نیتن یاہو کے احسانات سے زیر بار لوگ بھی انہیں سپورٹ کرنے سے قاصر ہیںیہاں تک کہ لیکوڈ پارٹی کے سینئر سیاستدان گیدون ساعر نے الیکشن سے پہلے ہی پارٹی الیکشن کا مطالبہ کر ڈالا۔ یہ وہی ساعر ہیں جنہیں نیتن یاہو سیاست میں لائے تھے لیکن احسان مندی کے باوجود وہ اپنے محسن کے مہنگے سگار اور شراب کی بوتلوں کی وصولی کا دفاع نہ کر سکے کہ وہ جانتاتھے کہ اسرائیل کی سیاست کا فلٹر انیتن یاہو کواس الزام کے ساتھ آگے جانے نہ دے گا گوکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ مل کر وزارت عظمٰی بچالی لیکن وہ عدالت میں فردجرم عائد ہونے سے نہ بچ سکے ۔ اب ذرا 20جون 2017ء کوپاکستان آجائیں کوئٹہ میں ایک بدمست لینڈ کروزر وردی میں فرائض کی انجام دہی میں مصروف سب انسپکٹر کو کچلتی ہوئی چلی جاتی ہے ،حادثہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بیچارہ انسپکٹرعطاء اللہ اسی وقت زندگی کی بازی ہار جاتا ہے ۔پتہ چلتا ہے کہ یہ لینڈ کروزر پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور بلوچستان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین مجید اچکزئی کی ہے ۔حادثے کی وڈیو جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل جاتی ہے ۔شہری شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جس کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف درج ہونے والا مقدمے کا ملزم معلوم ہوجاتا ہے۔ سوشل میڈیا میں گردش کرتی وڈیو کے بعد پولیس کے پاس مجید اچکزئی کی گرفتاری کے کوئی راہ نہیں بچتی اوروہ قوعے کے چوتھے روز اس طرح باعزت طریقے سے گرفتار ہوتے ہیں کہ ہتھکڑیاں تک نہیں لگائی جاتیں۔انہیں اس واقعے پر زرا شرمندگی ندامت نہیں ہوتی وہ عدالت پیشی پر میڈیا کو دیکھ کر انتہادرجے کی بے شرمی سے انہیں ہی’’بے شرم لوگ‘‘ کہہ کر برس پڑتے ہیں ،قصہ کوتاہ بااثرباوسائل مجید اچکزئی قابل لائق وکلاء کی مدد سے پہلے ضمانت حاصل کرتے ہیںاور پھرماڈل کورٹ کویقین دلاتے ہیںکہ وہ بالکل بے قصور ،بے خطاء ہیں۔ ماڈل کورٹ یہ ’’سچ‘‘ مان کر چار ستمبر2020ء کو مجید اچکزئی کو باعزت بری کردیتی ہے۔ میں ماڈل کورٹ کے اس ماڈل فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا، اس سارے قضیئے میں سیاسی نظام کے اس فلٹر کو تلاش کررہا ہوں جو سویڈن کے وزیراعظم کے باپ کا سیاسی کیرئیر ختم کردیتا ہے جو اسرائیلی وزیراعظم کو پریشان کئے ہوئے ہے،میں کیمروں کے سامنے قانو ن آئین کی بالادستی کی بات کرنے والے محمود خان اچکزئی سے مخاطب ہوں کہ بدمست لینڈ کروزر سے ایک پولیس انسپکٹر کے کچلے جانے سے لے کر ،بنا ہتھکڑیوں کے ملزم کی عدالت میں پیشی ، جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی رکھنے کے مقدمے کے اندراج تک ’’اصول پسند‘‘ محمود خان اچکزئی نے اس بارے میںایک لفظ تک کیوں نہ کہا؟ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ان کی پارٹی کے اس سورما پر اغواء برائے تاوان ،قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ بھی درج ہے، ان خوفناک الزامات کے باوجود ان کی پارٹی کو یہی معزز شخص قانو ن ساز اسمبلی تک پہنچانے کے لئے ملا تھا،سنگین اور گھناؤنے الزامات میں لتھڑے اس ملزم کی اپنی صفوں میںموجودگی پر کسی کو بھی شرمندگی اور اعتراض کیوں نہ ہوا؟ان کی اصول پسندی اور اصولی سیاست یہاںکہاںغوطہ مار کر غائب ہوگئی ۔سامنے کی بات ہے ان کے بھاشن ہاتھی کے دکھانے کے وہی دانت ہیں جو ہر سیاسی جماعت اپنی سونڈکے دائیں بائیں لوگوں کو دکھانے کے لئے رکھتی ہے ۔کاش یہ متعفن سچ ایک پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی سے ہی چمٹا ہوتا مگر یہ تعفن چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے یہاں ہر سیاسی جماعت سے ہی اٹھتا ملتا ہے کہ یہاں سیاست میں کوئی فلٹر ہی نہیں ہے !