علی سفیان آفاقی صاحب سے میری پہلی ملاقات سید نور کی ایک فلم کے پریمیئر پر ہوئی۔ اس فلم کا نام تھا ’’گھونگھٹ‘‘۔ فلم کا پریمیر شو تھا الفلاح سینما میں۔ شاید اس شوکو مِس کرجاتا مگر ایک سرکس فیم میاں فرزند صاحب جو کہ مشہور فلم ساز بھی تھے، ان کے نوجوان بیٹے راشد فرزند کا اصرار ردّ نہ کرسکا۔ ہمیں جو نشست ملی وہ آفاقی صاحب کے ساتھ ہی تھی۔ راشد نے میرے چہرے پر اس ہیجان کو نوٹ کرلیا جو آفاقی صاحب کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا۔ پھر فلم چلتی رہی اور ہم آفاقی صاحب کے تبصروں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ میں ان کی اس فلمی الف لیلیٰ کا باقاعدہ قاری تھا جو وہ ایک ماہانہ ڈائجسٹ میں لکھتے تھے۔ لکھتے کیا تھے، خوب اور باکمال لکھتے تھے۔ جب 2014ء میں پی ٹی وی پر پروگرام شروع کیا تو آفاقی صاحب سے سے اکثر درخواست کرتا کہ فلم پر پروگرام کرلیتے ہیں، آپ تشریف لائیے۔ ’’آپ کا پروگرام ون پلس تھری ہے۔ کبھی سولو گفتگو ہوئی تو ضرور آئوں گا‘‘۔ وہ اس وقت ایک ہفت روزہ میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ وقت ان کے پاس زیادہ نہ ہوتا تھا۔ پھربھی کبھی کبھار ان کو سننے اور دیکھنے کے لیے ہم کوئی نہ کوئی بہانہ نکال ہی لیا کرتے تھے۔ ماہنامہ سرگزشت میں انہوں نے اپنی فلمی یادداشتوں کا جو سلسلہ شروع کیا تو ان کے مطابق ’’جب وہ لکھنے بیٹھے تو یادوں کا ایک ہجوم تھا کہ امڈا چلا آرہا تھا اور پھر یہ سلسلہ الف لیلیٰ کی طرح طویل ہوتا چلا گیا‘‘۔ ان گنت واقعات، ستاروں جیسی شخصیات، انوکھے تجربات، نت نئے مشاہدات، پردہ سکرین کے بڑے لوگوں سے ذاتی تعلقات اور پھر ذاتی تاثرات۔ ماضی کے صحافی، ادیب اور شاعر۔ فلم کی جادونگری کی ایسی کہانیاں جو پہلے کسی نے نہ سنی ہوں۔ کمال یہ کہ ہر داستان سے ایک نئی داستان جنم لیتی ہے۔ خوابوں جیسے لوگ … پری چہرہ لوگوں کے قصے، اسی لیے اسے فلمی الف لیلیٰ کا نام دے دیا گیا۔ جب اس فلمی الف لیلیٰ کو کتابی شکل دی گئی تو آفاقی صاحب اس کا خوبصورت انتساب لکھتے ہوئے کہتے ہیں ’’فلم، علم و ادب اور صحافت کے اس شاندار دور کے نام جو اَب خواب و خیال ہوچکا … وہ اپنے شعبوں کی بلند و بالا اور جگمگاتی شخصیات جن کے دم سے ان شعبوں میں روشنی تھی۔ ان کے کارنامے فراموش نہیں کیے جاسکتے۔ ایسی ہستیاں شاید اب دوبارہ دیکھنے کو نہ ملیں گی‘‘۔ … پتہ نہیں کہ یہ ماضی کا اعجاز ہوتا ہے کہ وہ پلٹ کر نہیں آتا اس لیے رگ و پے میں تھم سا جاتا ہے، یا واقعی وقت روبہ زوال ہوتا ہے۔ نہ مہدی حسن کا بدل پیدا ہوتا ہے نہ نورجہاں پھر واپس آتی ہے۔ آج کی موسیقی اور آج کی فلم ؟ نہ وہ سٹار … نہ موسیقی … نہ فلمی گیت… نہ کہانیاں۔ شاید آج کے تخلیق کار کے پاس اتنی DEPTH نہیں ہے۔ شاید اس کے فن میں اس کی روح نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اس کے پاس وقت ہی نہ ہو۔ ہوسکتا ہے اس کی اپنے شعبے میں مکمل گرومنگ ہی نہ ہوئی ہو۔ مگر آج فلم کا گانا … اس کے بول سٹرائک نہیں کرتے، چونکاتے نہیں۔ اب حزیں قادری، ماسٹر عبداللہ اور ماسٹر عنایت کو ہم زیادہ مس کرتے ہیں۔ شاید بدلتی رُتوں نے … وقت کی کروٹوں نے ذوق بھی بدل دیئے ہیں۔ بتدریج زوال ہے مگر اس کا احساس نہ ہونا بھی بہت باکمال ہے۔ آفاقی صاحب نے … اے حمید نے… مستنصر حسین تارڑ نے… عبداللہ حسین نے… حمید اختر نے جو ادوار دیکھے وہ اب کیوں نہیں ہیں، یا شاید ویسا دیکھنے والے اب کم ہوتے جارہے ہیں۔ آفاقی صاحب کی فلمی الف لیلیٰ کی چند جھلکیاں: سنتوش صاحب کی شادی کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ اس زمانے میں ایک فلمی وفد یورپ گیا تو سنتوش اور صبیحہ خانم بھی اس وفد کا حصہ بن گئے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ دونوں نے وہاں شادی کرلی ہے۔ ہم نے خبر شائع کی تو دونوں نے پُرزور تردید کردی۔ یورپ سے واپسی پر ایک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس میں ہم نے کچھ ایسے سوالات کیے کہ سنتوش صاحب کو اپنی اور صبیحہ خانم کی شادی کا اقرار کرنا پڑا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں جن نوجوانوں نے اپنی ہنر مندی اور صلاحیتوں سے نام بنایا ان میں ایک نام خلیل قیصر کا بھی ہے۔ خلیل قیصر کو موسیقی سے لگائو تھا۔ فلموں سے عشق تھا۔ وہ راولپنڈی سے لاہور آیا۔ مصروف اور مقبول ترین ڈائریکٹر انور کمال پاشا کا شاگرد بن گیا۔ اس زمانے میں انور کمال پاشا کا طوطی بولتا تھا۔ پاشا صاحب نے ہماری فلمی صنعت کو بہت سے مصنف، شاعر، اداکار اور ہدایت کار دیئے۔ ان ڈائریکٹرز میں خلیل قیصر، حسن طارق، ایس سلیمان، جعفر ملک اور آغا حسینی جیسے لوگ شامل تھے۔ باری سٹوڈیو کے مالک باری ملک نے پنجابی فلم ’’یار بیلی‘‘ بنائی تو خلیل قیصر اس کے ڈائریکٹر تھے۔ مگر مصنف عزیز میرٹھی کی فلم ناگن نے اس نوجوان ڈائریکٹر کو شہرت کی بلندیوں پرپہنچادیا۔ ہر فلم ساز انہیں سائن کرنا چاہتا تھا مگر وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم بنانے کے قائل تھے۔ اس پر انہیں ریاض شاہد (شان کے والد) کا ساتھ مل گیا اور اس ٹیم نے پاکستانی صنعت کو یادگار فلمیں دیں۔ کلرک، دوشیزہ، فرنگی اور شہید۔ فرنگی ہی میں خواجہ خورشید انور نے فیض صاحب کی مشہور غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے‘‘ کا میوزک کمپوز کیا اور اسے مہدی حسن نے گا کر امر کردیا۔ 1966ء میں خلیل قیصر سمن آباد میں اپنے گھر میں ڈکیتی میں قتل ہوگئے۔ آفاقی صاحب کی زبان میں، واقعات اور خیالات کا اتنا ہجوم ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ دھکم پیل کا عالم ہے۔ ہر واقعہ چاہتا ہے کہ دوسرے سے آگے نکل جائے۔ہم نے بہت طویل زندگی تو نہیں گزاری مگر ایک عمر میں کئی عمریں گزاری ہیں۔ صحافت، ادب، فلم، معاشرہ، سیاست، تجزیئے، جائزے، تاریخ، آپ بیتی، جگ بیتی اور شخصیات۔ ہر تذکرہ ایک تہ در تہ کہانی ہے۔ 1958ء میں باقاعدہ صحافت ترک کرکے فلمی کوچے میں جا نکلے۔ وہاں کی آب و ہوا بدلی تو پھر صحافت کی وادی میں آگئے۔ 1990ء میں 32 سال بعدد وبارہ باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا۔ بدقسمتی ہے کہ جس کام کو جاننے میں عمر صرف کردی اسی کو خیرباد کہنا پڑا۔ بطور صحافی، کہانی نویس، فلم ساز اور ہدایت کار ہمارا فلمی تجربہ لگ بھگ پچاس سال پر محیط ہے۔ مگر یہ سب رائیگاں ہی گیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو بنانے اور سنوارنے کے جو خواب دیکھتے تھے وہ ایک ایک کرکے ٹوٹتے گئے اور پھر آنکھ کھل گئی۔ ہم آنکھیں ملتے اٹھ بیٹھے۔ کیا خواب اتنے طویل اور مسلسل بھی ہوتے ہیں اور کیا کبھی ان کی کوئی تعبیر بھی ہوگی؟ باتیں ہماری یاد رہیں … پھر باتیں نہ ایسی سنئے گاگر کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تک سر دھنئے گا۔