پنجاب حکومت کی طرف سے فنکاروں میں امدادی چیک تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، یہ چیک صوبے کی آرٹس کونسلوں کی معروفت تقسیم کئے جا رہے ہیں ۔ صوبے کی 9 آرٹس کونسلوں میں سے تین سرائیکی وسیب میں ہیں ، ملتان اور ڈی جی خان کے بعد بہاولپور آرٹس کونسل کی طرف سے گزشتہ روز رنگارنگ تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔ فنکاروں کی کثیر تعداد آرٹس کونسل میں موجود تھی ، ادارہ جھوک کی ادبی و ثقافتی خدمات کے حوالے سے راقم الحروف بندہ ناچیز کو بھی مہمان کے طور پر بلایا گیا تھا ۔ گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے میں قدرے تارخیر سے وہاں پہنچا ۔ تقریب کے مہمان خصوصی کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری خطاب کرنے کے بعدجا چکے تھے ، مجھے ڈائریکٹر آرٹس کونسل رانا اعجاز محمود اور پروگرام آفیسر ملک ذکاء اللہ نے کہا کہ کمشنر صاحب دوبارہ تشریف لا رہے ہیں کہ انہوں نے چولستان کے فنکاروں سے ملاقات کرنی ہے تو اس موقع پر آپ کی موجودگی بہتر ہے۔ قبل ازیں کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار کی حکومت مقامی فنکاروں کی فلاح و بہبود اور انہیں حکومتی وسائل سے ہر ممکن طور پر امداد فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے تاکہ انہیں خطے کی ثقافت کو اجاگر کرنے اور فن کی آبیاری کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔انہوں نے کہا کہ بہاولپور ڈویژن کے فنکاروں میں مجموعی طور پر2 لاکھ 65 ہزار روپے کے امدادی رقوم کے چیک تقسیم کر دیئے گئے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقامی فنکاروں کو 5 ہزارفی کس امدادی رقوم کے چیک دیئے رہے ہیں ۔ کمشنر صاحب کے جانے کے بعد فنکاروں سے ملاقات ہوئی تو فنکاروں نے شکوہ کیا کہ رقم بہت کم ہے ، اتنا تو ہمارا آنے جانے کا خرچہ ہو گیا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ہم توقع کر رہے تھے کہ جس طرح پہلے پچاس ساٹھ ہزار فی کس دیا گیا تھا ، اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا مگر مایوسی ہوئی ہے ۔ جس پر ڈائریکٹر آرٹس کونسل رانا اعجاز محمود نے کہا کہ یہ ٹوکن ہے ‘ آپ کو ہر ماہ گرانٹ ملتی رہی گی ، جس پر فنکاروں کی قدرے تسلی ہوئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اس بات کا بھی ذکر کروں گا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے آرٹسٹ سپورٹ فنڈز کا اجراء قابل قدر ہے، اس میں وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر مبارکباد کے مستحق ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اس سپورٹ فنڈز میں جس شخصیت کا کردار سب سے زیادہ ہے ‘ ان کا نام راجہ جہانگیر ہے اور وہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت کے عہدے پر فائز ہیں ۔انہوں نے سپورٹ فنڈ کی سمری تیار کرائی ، جس میں فلم ، ٹی وی ، ریڈیو ،تھیٹر ، میوزک ، ڈانس ، پینٹنگ، خطاطی ، مجسمہ سازی و دیگر فنی شعبہ سے وابستہ افراد کے لئے کم از کم عمر کی حد 50 سال اور متعلقہ شعبہ میں تجربہ کا درانیہ 25 سال رکھا گیا ۔اس کے ساتھ ساتھ ایڈیٹر ز، ساؤنڈ ریکارڈرز، لائٹس مین ، کیمرہ مین ، سٹنٹ مین ، میک اپ آرٹسٹ کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی انہوں نے فنکاروں کے اسی طرح مدد کرائی تھی اور غریب فنکار آج بھی ان کو دعائیں دیتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد کمشنر آصف اقبال چوہدری تشریف لائے ، ہینڈ شیک ہوا ، تعارف کے بعد کمشنر صاحب نے مجھے دوبارہ گلے سے لگایا اور کہا کہ جو لوگ بھی اپنی زبان ، اپنی ثقافت اور اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں ، عظیم ہوتے ہیں ۔ اس موقع پر چولستانی فنکاروں کرشن لال بھیل، مائی دادلی و دیگر نے کمشنر صاحب سے ملاقات کی اور شکریہ ادا کیا کہ ان کو آرٹس کونسل کی تقریب میں یاد رکھا گیا ۔ کمشنر صاحب نے ان کو دس دس ہزار روپے انعام دینے کے ساتھ اعلان کیا کہ آپ نے چولستان کا جو خاص لباس پہن رکھا ہے ‘ اس کے دو دو جوڑے معہ شوز ہم بنوا کر دیں گے ۔ اپنی گفتگو میں آصف اقبال چوہدری نے کہا کہ میں بہاولپور کا گورنر بن کر نہیں آیا بلکہ بحیثیت کمشنر آپ کی خدمت کیلئے آیا ہوں اور آپ کی خدمت میرے فرائض میں شامل ہے۔ چولستان عظیم خطے اور عظیم صحرا کا نام ہے ،اس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری بھی رہتی ہے جو کہ فن سے وابستہ ہے، ان کے بھی بحیثیت پاکستانی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے کہ مسلمان کے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری کے چولستانی فنکاروں کو بھی آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے ۔ سچی بات یہ ہے کہ کمشنر کا خطاب نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے ڈائریکٹر آرٹس کونسل کو مخاطب کر کے کہا کہ 10 فروری کو آپ آرٹس کونسل میں چولستان فیسٹیول کرنے جا رہے ہیں ، میں واضح کہتا ہوں کہ یہ فیسٹیول صرف اور صرف سرائیکی میں ہونا چاہئے کہ سرائیکی اس خطے کی قدیم اور میٹھی زبان ہے ۔ کمشنر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی تمام زبانوں کو پروموٹ ہونا چاہئے ، ابتدائی تعلیم مقامی زبانوں میں ہونی چاہئے ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں لاہور میں اپنی پنجابی ماں بولی نہیں پڑھ سکا ۔ جناب آصف اقبال چوہدری کے خیالات نے مجھے بہت متاثر کیا ، تقریب کے اختتام پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور چولستان جیپ ریلی کے حوالے سے بھی کہا کہ بہت اچھی بات ہے کہ اس ریلی کو عالمی حیثیت حاصل ہو چکی ہے مگر چولستان کے مسئلے حل ہونے چاہئیں ، چولستانیوں کو تعلیم، صحت اور روزگار کے سہولتیں ملنی چاہئیں تو کمشنر صاحب نے کہا کہ میں آپ سے متفق ہوں۔ خوش قسمتی سے بہاولپور کو ادب نواز اور آرٹ سے محبت کرنے والا کمشنر ملا ہے تو اس موقع پر یہ بھی درخواست کروں گاکہ بہاولپور کا ادبی ادارہ سرائیکی مجلس جس پر سال ہا سال سے تالے لگے ہوئے ہیں ۔ اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اسکی ذمہ داری حکومت پر نہیں بلکہ سرائیکی ادیبوں اور دانشوروں پر عائد ہوتی ہے۔سرائیکی مجلس کی اپنی ایک تاریخ ہے ‘ یہ مجلس ’’ سرائیکی ‘‘ کے نام سے سہ ماہی رسالہ بھی شائع کرتی تھی ، کئی کتابیں بھی شائع کی گئیں جو وسیب کا ادبی اثاثہ ہیں ۔ یہ کام کمشنر صاحب کر سکتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ چوک سرائیکی وسیب کی تاریخ و ثقافت کے مطابق دوبارہ تعمیر کرایا جائے۔