اجتماعی شعور کی نابالیدگی کے باعث عوامی سوچ ان سوکھے پتوں کے ماند ہوتی جن کو پراپیگنڈہ کا طوفان من چاہی سمت میں اڑاتا لیے پھرتا ہے۔ پاکستان کو 74سال بعد بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ میڈیا پراپیگنڈا مہم نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک تاثر پیدا کر دیا ہے، سیاسی اشرافیہ یہاں تک کہ دانشور حلقوں میں بھی سیاسی ناکامیوں کا الزام عسکری اداروں پر دھرنے کا فیشن بن چکا ہے۔ حق گوئی کا عالم یہ ہے کہ بڑے سے بڑا سیاستدان اور دانشور کھل کر بات کرنے کے بجائے مقتدر حلقے‘بحرانوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار اپنے قومی سلامتی کے اداروں کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ آج کل عمران خان کی حکومت کو سلیکٹرز کا انتخاب قرار دے کر نہ صرف ناکامیوں کا ذمہ دار سلیکٹرز کو قرار دیا جا رہا ہے بلکہ مایوسی کو جواز بنا کر آئے روز کسی نہ کسی کو مائنس کرنے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں۔ اندھی خواہشات اور مبہم سیاسی منظر نامے سے عاجز آ کر مائنس کی آس لگانے والوں کے لئے مرشد خورشید ندیم نے 16جولائی کو مائنس بائیس کروڑ کے عنوان سے کالم لکھا اور اس قسم کی سیاست کو ایسا راستہ قرار دیا جس کے آخری سرے پر کوئی روشنی نہیں۔ انہوں جہاں سیاسی عمل جاری رکھنے کا مشورہ دیا وہاں کھوٹے سکوں کو بدلنے کے بجائے ٹیکسال کے سانچے بدلنے کی بات کی۔ تحریر میں جہاں لکھنے والے کی ملک سے محبت اور عوام کا درد محسوس کیا جا سکتا ہے وہاں یہ قاری کوسوچنے پر بھی اکساتی ہے۔ قاری کے ذہن میں مختلف سوالات ابھرتے ہیں کہ کھوٹے سکے ڈھالنے کی نوبت ہی کیوں آئی؟یہ ٹیکسال ضرورت تھی یا مجبوری؟ ذمہ دار کون ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ماضی میں جھانکیں تو استاد الشعراء ظفر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے: اپنی طرف ہی رخ تھا وہاں واردات کا الزام اس کے نام پہ دھرنے کے باوجود پاکستان کا قیام ایک جمہوری انداز میں عمل میں آیا اور بانی پاکستان کی قیادت میں حکومت بھی عوامی خواہشات کے مطابق تھی ۔ اس سیاسی نظام میں کمزوری نے ہی بانی پاکستان کو اس حد تک مایوس کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ۔ جب علالت کے دوران وزیر اعظم لیاقت علی خان ان سے ملنے زیارت آئے اس کے بعد ان کی مایوسی اس حد تک انتہا کو پہنچ گئی کہ اپنی بہن سے فرمایا’’ فاطی میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتا‘‘! لیاقت علی خان نے سیاستدانوں پر لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات لگائے۔ لیاقت خان کے قتل کے بعد پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے احوال کے بارے میں ایک مضمون 1951-58ء ‘Parliment in chaos‘ 30اگست 2017ء کو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا جو قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستانی سیاستدانوں کی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی مختصر داستان ہے.مگر ٹیکسال اور کھوٹے سکوں کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پارلیمانی روایات کو یکسر پامال کرتے ہوئے فنانس منسٹر غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا اور خواجہ ناظم الدین جو پہلے گورنر جنرل تھے تنزلی کے بعد وزیر اعظم بننے پر مجبور ہوئے ۔ چودھری محمد علی فنانس منسٹر بنے ۔ سیاستدان 6سال تک آئین نہ دے سکے۔ گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے درمیان تنائو 15ماہ بعد اپریل 1953ء میںخواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر منتج ہوا۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارت سے علیحدگی کی وجہ معاشی بحران اور امن و امان کی مخدوش صورت بتائی گئی ۔یاد رہے کہ امن و امان بگڑنے کی وجہ قادیانیوںکے خلاف تحریک تھی ۔جس کے بارے میں عدالت تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ممتاز دولتانہ نے ایک تحریک کو عقیدے کی بنیاد پر ہوا دی تھی تاکہ خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو کمزور کر کے سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں ۔ان حالات کی ذمہ داری فوج پر ہیں ڈالی جا سکتی۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرہ جو واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر تھے وزیر اعظم بنے اس کھیل میں سکندر مرزا کا کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ 1951ء سے 1958ء تک پاکستانی سیاست اقتدار کی لڑائی میں ایسے الجھی کہ بھارتی وزیر اعظم کو کہنا پڑا میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدلتے ہیں۔ سکندر مرزا پاکستانی تاریخ کا ایسا کردار ہے جو پاکستان میں بادشاہ گر بنا۔ محمد علی کے بعد وزیر اعظم حسین شہید بنے پھر آئی آئی چندریگر اور یہ کھیل سکندر مرزا کے پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگانے پر منتج ہوا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سکندر مرزا فوج کا سربراہ نہ تھا۔ لہٰذا اصولی طور پر متحدہ پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگانے والا شخص فوجی نہیں بلکہ سیاسی شخص تھا یہ الگ بات ہے کہ آرمی چیف ایوب خان نے اگلے 20روز میں سکندر مرزا کے اقتدار کا بستر بھی لپیٹ دیا۔ اس کھیل کا حتمی نتیجہ سقوط ڈھاکہ نکلا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ نئے پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی اور جمہوری عمل شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ۔ستم ظریفی یہ کہ پاکستان میںدوسرا مارشل لاء لگانے والا بھی کوئی فوجی نہیں جمہوری اور سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اس کے بعد کی تاریخ میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں قومی اتحاد کے کرادر اور مشرف کو اقتدار کی دعوتیں دینے والے سیاستدانوں کے احوال کل کی بات ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طویل دینے کے لئے سیاستدانوں کو استعمال کیا۔ مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ سیاستدانوں نے نہ صرف فوجی حکمرانوں کو اقتدار سنبھالنے کی درخواستیں کیں بلکہ جمہوری حکومتوں کے خاتمے اور آمر کی آمد پر مٹھائیاں بانٹنے والے ہمارے سیاست دان تھے ۔رہی بات ٹیکسال اور سانچوں کی تو کیا قومی سلامتی کے ضامن اداروں کا یہ فرض نہیں کہ ملکی بقا کے لئے اور ملک میں سیاسی استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کریں؟ ۔ہر بار سیاسی نظام بحال اور جمہوری حکومت کے استحکام کی کوشش کی جاتی ہے اگر سیاست کے سکے کھوٹے نکل آئیں اور ان کو کھوٹے کرنے والے بھی سیاستدان ہوںتو سانچے کا کیا قصور۔ فوج سرحدوں پر جانیں بھی دے اور ملکی استحکام کے لئے بھی لڑے، سب سے بڑی بات سلیکٹرز، خلائی مخلوق اور ایمپائر کے طعنے بھی سہے ۔ہاشم رضا جلالپوری نے کہا ہے: ساری رسوائی زمانے کی گوارہ کر کے زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے