احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کا جمع کرایا بیان غلط بیانی کا پلندہ‘ تضادات کا مجموعہ‘ پانامہ پیپرز میں موجود الزامات کی براہ راست تائیداور پاک فوج کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ عدالت کے سامنے ہر مجرم ماضی کے مختلف واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر سازشی کہانی بیان کر تا ہے اور یہ ہم روزانہ نچلی عدالتوں میںپیشہ ور گواہوں اور عادی مجرموں کی زبانی سنتے ہیں۔بیان کا آغاز ہی غلط بیانی سے ہوا کہ ’’میرے بزرگوں نے پاکستان کی خاطر ہجرت کی‘‘ میاں نواز شریف کے بزرگ قیام پاکستان تو درکنار قرار داد پاکستان کی منظوری سے بھی قبل تلاش روزگار میں جاتی امرا چھوڑ کر لاہور آئے اور چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا۔ شکر ہے میاں صاحب نے یہ نہیں کہہ دیا کہ وہ علامہ اقبال کے خطبہ سے متاثر ہو کر وارد لاہور ہوئے اور اتفاق فائونڈری دراصل 1940ء میں منٹو پارک میںپاکستان مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع کی تیاری اور قرار داد پاکستان کی منظوری کے لیے قائم ہوئی ‘اتفاق فائونڈری کے منافع سے اجتماع کے اخراجات ادا کیے گئے اور قرار داد منظور کرنے والے لیڈروں کے قیام و طعام کا اہتمام ہوا۔ میاں صاحب سے کیا بعید ۔ لیاقت علی خاں کے خلاف راولپنڈی سازش کیس میں میجر جنرل اکبر خان‘ فیض احمد فیض اور سید سجاد ظہیر ملوث تھے۔ فیض صاحب نے کبھی اسے سازش نہیں مانا۔ سجاد ظہیر بھارت چلے گئے اور بعدازاں میاں نواز شریف کے علاوہ ہمارے تازہ مشرف بہ جمہوریت ہونے والے جمہوریت پسندوں کے رول ماڈل ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی سازش کیس کے دواہم کرداروں میجر جنرل اکبر خان‘ فیض احمد فیض کو مشیر بنالیا۔ ہم نے زندگی بھر ترقی پسندوں کے مُنہ سے راولپنڈی سازش کیس کو لیاقت علی خان‘ سکندر مرزا اور ایوب خان کی ذہنی اختراع قرار دیتے سنا مگر اب میاں صاحب اسے فوج اور لیاقت علی خاں کے مابین سول بالادستی کی جنگ کے طور پر پیش کر رہے ہیں حد یہ کہ لیاقت علی خان کی شہادت کا ملبہ بھی فوج پر ڈال رہے ہیںثابت وہ یہ کرنا چاہتے ہیںکہ پاک فوج نے 1948ء سے اب تک بھارت کے خلاف سازشوں اور جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ 1977ء میں انتخابی دھاندلی کے کردار ذوالفقار علی بھٹو کوجن کی پھانسی پر اتفاق فائونڈری اور ماڈل ٹائون ’’اتفاق‘‘ بلاک میں مٹھائیاں بانٹی گئیں‘ شہید جمہوریت بھی اس پس منظر میں قرار دیا جا رہا ہے۔ تاریخ اسی رفتار سے مسخ ہوتی رہی تو کل کلاں کو میاں صاحب موہن داس کرم چند گاندھی‘ جواہر لال نہرو اور لارڈ مائونٹ بیٹن کو جنوبی ایشیا نہ سہی برصغیر کا ہیرو اور قائد اعظم کو ولن قرار دے سکتے ہیں ولن اس لیے کہ قائد نے برصغیر کو تقسیم کر دیا ورنہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان سکون سے مل جل کر آلو گوشت کھاتے‘ بھگوان اور رب کی پوجا کرتے اور میاں صاحب کا ذاتی کاروبار کلکتہ تک پھیل چکا ہوتا۔ 1950ء سے 2007ء تک کی فوجی کارروائیوں اور28جولائی 2017ء کے عدالتی فیصلے کو ایک دوسرے میں صرف وہی شخص گڈ مڈ کر سکتا ہے جو اس ملک کے عوام کے علاوہ اخبار نویسوں‘ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو پرلے درجے کا بے وقوف اور اپنے آپ کو چانکیہ یا میکیا ولی کا گروسمجھتا ہو لیاقت علی خان کی شہادت ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھی قاتل تک مقامی نہیں بلکہ افغانی تھا۔ جبکہ بھٹو صاحب سے 1977ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کا ارتکاب اسٹیبلشمنٹ نے کرایا نہ نواب محمد احمد خان کا قتل کسی فوجی جرنیل کے ایما پر ہوا۔ پانچ سالہ دور اقتدار میں میاں صاحب کے ممدوح بھٹو صاحب نے ملک کے صنعتکاروں‘ سیاسی مخالفین ‘ نقاد صحافیوں اور عدلیہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق شہید‘ بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مولوی شمس الدین کا قتل‘ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی اسمبلیوں اور حکومتوں پر شب خون‘ آزادی تحریر و تقریر پر پابندی‘ مخالف اخبارات و جرائد کی بندش اُن کے زوال اور بالآخر درد ناک انجام کا سبب ہے مگر میاں صاحب محض اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے انہیں لیاقت علی خاں کے ساتھ ملا رہے ہیں جبکہ 1988ء سے 2013ء تک ہر منتخب حکومت کے خلاف سازش میں موصوف پیش پیش اور اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ رہے ۔ میاں نواز شریف نے آج تک کسی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوال کا جواب دیا نہ سپریم کورٹ‘ جے آئی ٹی اور احتساب کورٹ کے روبرو اپنی صفائی میں کاغذ کا ایک ٹکڑاپیش کیا۔ حیران میں صحافیوں کی قوت برداشت پر ہوں کہ ہر بار میاں صاحب کی لن ترانی سن کر کوئی سوال کیے بغیر اُٹھ آتے ہیںاور بے مزہ نہیں ہوتے۔عدالتی تاریخ میں یہ سہولت غالباً صرف میاں نواز شریف کو ملی کہ وہ 127سوالات کا جواب بھی وکیلوں یا تقریر نویسوں کی تحریر پڑھ کر دیں اور اپنے بیان کے ساتھ ایک بھی ٹھوس ثبوت پیش کریں نہ قابل اعتبار گواہ۔ سوال اُن سے ہوا کہ ایون فیلڈ فلیٹس کی خریداری کیسے ہوئی‘؟ گلف اور العزیزیہ سٹیل ملز کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ اور یہ رقم متحدہ عرب امارات و سعودی عرب سے قطر اور لندن کیسے منتقل ہوئی؟ مگر جواب موصوف یہ دے رہے ہیں کہ1951ء کی راولپنڈی سازش‘1958ء اور 1977ء کا مارشل لاء 1999ء میں پرویز مشرف کی فوجی مداخلت‘3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی اور 2014ء کا دھرنا میرے خلاف سازش تھی۔ مفاد پرستوں اور پاک فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی بات الگ ہے ان سوالات کا یہ بے تُکاجواب سن کر کوئی صحیح الدماغ شخص سر پیٹے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ میاں صاحب کی دماغی حالت پر شک کرے یاان کی دانش و بصیرت کو کوسے؟ کہ ؎ یہ کس دور میں مجھ کو جینا پڑا ہے کہ کانٹوں سے زخموں کو سینا پڑا ہے میاں صاحب نے احتساب عدالت میں جو بے سروپا بیان جمع کرایا اس سے کوئی عامی متاثر ہوا نہ آئین و قانون کے دائرے‘ مستند شہادتوں اور قابل اعتبار گواہوں کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ لکھنے والا کوئی جج متاثر ہو سکتا ہے۔البتہ امریکہ و بھارت کے لیے پاک فوج کے خلاف موثر ہتھیار ہے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ 12نومبر سے بہت پہلے میاں نواز شریف اپنے ہی آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ ستمبر کے تیسرے ہفتے میاں نواز شریف اپنے والد گرامی میاں محمد شریف مرحوم‘ بھائی میاں شہباز شریف‘ مجاہد اول سردار عبدالقیوم اور ایک دو دیگر رہنمائوں کو ساتھ لے کر بزرگ صحافی مجید نظامی مرحوم کے گھر پہنچے اور بتایا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو معزول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وجہ یہ بتائی کہ آرمی چیف انہیں کرگل آپریشن کی ناکامی کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ سردار عبدالقیوم خان کو ساتھ لانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نظامی صاحب کے دلائل کا توڑ کر سکیں مگر جب نظامی صاحب نے سوال کیا کہ میاں صاحب !آخر آپ کی کسی چیف جسٹس ‘ آرمی چیف سے بنتی کیوں نہیں اور آپ جلد اپنی پسند کے چیف سے اُکتا کیوں جاتے ہیں ؟تو اس سوال کا کوئی جواب شریف خاندان کے علاوہ سردار عبدالقیوم خان سے بھی نہ بن پڑا۔12اکتوبر کے واقعہ کے بعد ایک بار جب میں برادر سکندر لودھی کے ہمراہ سردار صاحب کے ریواز گارڈن کے قریب ہوٹل میں ملا اور ان سے محفل کی روداد دریافت کی تو سردار صاحب نے ان تمام باتوں کی تصدیق کی جو میں مجید نظامی صاحب سے سن چکا تھا اور بتایا کہ نظامی صاحب کی باتیں سن کر میں نے بھی میاں صاحب سے یہ کہا کہ اب جنرل پرویز مشرف کو برداشت کریں اور کسی نئی شرارت سے اپنے آپ اور ملک کو مشکلات کی دلدل میں نہ دھکیلیں مگر وہ کہاں باز آنے والے تھے۔ مجید نظامی صاحب بتایا کرتے تھے کہ جدہ کی ملاقات میں‘ میں نے میاں صاحب سے کہا بھلا آرمی چیف کو اس طرح بھی معزول کیا جاتا ہے اس انداز میںتو میں اپنے نائب قاصد کو بھی نوکری سے نہ نکالوں۔ 12اکتوبر کو سول بالادستی کی جنگ تھی نہ آرمی چیف کی حکم عدولی پرمیاں صاحب کے اصولی فیصلے کا معاملہ۔ فوج کی برہمی کی وجہ یہ تھی کہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کی بریفنگ میں کرگل آپریشن کی منظوری دینے کے بعد میاں صاحب پیچھے ہٹ گئے۔ واجپائی سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کو ترجیح دی اور پرویز مشرف کے نقطہ نظر سے ’’اپنی فوج کی پیٹ میں چھرا گھونپا‘‘۔ اتفاق سے 1999ء میں سید مشاہد حسین میاں صاحب کے وزیر تھے ۔ اس وقت نیو یارک ٹائمز میں Rogue Armyکے اشتہار چھپ رہے تھے اور وزیر اطلاعات انہیں رکوانے کے بجائے نجی محفلوں میں اپنی ہی فوج کے موقف کی تردید میں مصروف ۔آج میاں صاحب خود سیرل المیڈا کے ذریعے دنیا میں فوج کا یہی تشخص اجاگر کر رہے ہیں انہوں نے میجر جنرل اکبر خان‘ پرویز مشرف اور جنرل باجوہ کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے‘ بھارت ماتا کی جے‘ احتساب عدالت میں میاں صاحب کا بیان اعتراف جرم ہے کہ ان کے پاس اپنے حق میں ٹھوس ثبوت ہے نہ قابل اعتبار گواہ‘ عدالتیں جبکہ اس کا تقاضا کرتی ہیں۔ سیاسی بیان بازی سے عوام گمراہ ہو سکتے ہیں اور سیاسی کارکن بھی مگر تاریخ کو مسخ کرنا اتنا آسان نہیں۔ قومی دانش کی اس قدر توہین اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی اور اپنی فوج پر اتنا بڑا حملہ دنیا کے کسی لیڈر نے نہیں کیا مگر یہاں سب چلتا ہے۔