جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ تاریخ فکر فرید کے مبلغ حضرت سراج اہلسنت کے بغیر مکمل نہ ہو گی ،قدم قدم پر مولانا کی یادیں بکھری پڑی ہیں ،انہوں نے کم و بیش نصف صدی دین خدمت کی ،یہ نصف صدی اتنے بھرپور تھی کہ اسے دو صدیوںکا سفر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ، خانپور میں مدرسے کا قیام ،تعلیم کا سلسلہ ،اجتماعات ،جمعے کا خطاب اور سالانہ سات روزہ جلسہ عید میلاد النبیؐ کی مختلف یادوں کو قلمبند کرنے بیٹھیں تو کئی ابواب رقم ہو جائیں ،میں اپنے بارے بتائوں کہ میری بے نصیبی ہے کہ نہ تو میںمولاناصاحب کے شاگردوں میں شامل ہو سکا اور نہ ہی طویل نشستوں یا صحبتوں کا شرف حاصل ہوا ،البتہ اتنا بھی غنیمت ہے کہ ان کے لاکھوں عقید ت مندوں میں بندہ ناچیز کا نام سب سے آخر میں سہی ، شامل ہے، چند ایک واقعات کا تذکرہ اور کچھ عقیدت کے پھول پیش کر رہا ہوں ؎ گر قبول افتدذ کہ ہے عزو شرف۔ قبلہ حافظ سراج احمد سئیں کی پیدائش 1331ھ بمطابق 1911ء خانپور میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم قبلہ حافظ نظام دین سے حاصل کی ۔ پھر اسلامی کتابیں معروف عالم دین مولانا محمد موسیٰ سے پڑھیں۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم سراج الفقہ حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی سے مکھن بیلا میں جا کر حاصل کی ۔ ازاں بعد بھرچونڈی شریف میں مولانا عبدالکریم ہزاروی سے کچھ کتابیں پڑھیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی کہ تعلیم کے سلسلے میں قبلہ حافظ صاحب ہندوستان بھی تشریف لے گئے اور دارالعلوم سہارن پور میں بھی پڑھتے رہے۔ دارالعلوم دیو بند میں صحاستہ اور حدیث کی کتابیں پڑھیں ۔ 1929ء میں جلسہ دستار فضلیت منعقد ہوا اور آپ کو بہترین طالب علم کی پگ باندھی گئی ۔ دربار جیٹھہ بھٹہ کے سجادہ نشین میاں اما بخش سئیں کی درخواست پر جیٹھہ بھٹہ کے مدرسے میں پڑھاتے رہے۔ 1957ء میں انہوں نے خانپور میں مدرسہ سراج العلوم کی بنیاد رکھی۔ جشن عید میلاد النبیؐ کا جلسہ پہلے سے کر رہے تھے اور خانپور میں مدرسہ قائم کرنے کے بعد بھی اس روایت کو مزید آگے بڑھایا ۔ آپ کی بیعت سئیں خواجہ دُر محمد کوریجہ سے تھی ، اس نسبت سے آپ درانی کہلواتے ۔ کچھ لوگ سمجھتے کہ درانی آپ کی ذات ہے ، در اصل درانی آپ کی ذات یا قوم نہیں نسبت ہے ۔ قبلہ حافظ سراج احمد در اصل شارح دیوان فرید تھے ، آپ قرآن مجید کے حافظ تو تھے پر سارا دیوان بھی ان کو یاد تھا۔ جب تقریر کرتے تو قرآن مجید کی آیت کا حوالہ ، حدیث شریف کا حوالہ اور خواجہ فرید ؒ کے شعر ، یہ ساری چیزیں ساتھ ساتھ چلتی رہتیں ۔ جس موضوع پر بھی تقریر شروع کرتے ، اس کو منزل تک پہنچاتے ۔ جمعہ کے دن مسجد کمال دین میں ایک بات دیکھی کہ ہمارے سرائیکی تھوڑے ، مہاجر بھائی بہت زیادہ ہوتے تھے پر حافظ صاحب نے کبھی اردو میں تقریر نہ کی ۔ وہ ہمیشہ سرائیکی میں تقریر کرتے ۔ البتہ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کے اردو شعر ضرور شامل کرتے ۔ یہ شعر میں نے اکثر ان سے سنا ’’ آنکھ والا جو بن کا تماشہ دیکھے، دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے ‘‘ ۔ حضرت سراج اہلسنت کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ، جنہوں نے علم کی شمع کو ہر طرف روشن کیا اور ہر طرف علم کی سخاوت عام کی۔ حضرت مولانا مفتی محمد مختار احمد درانی مہتمم مدرسہ سراج العلوم آپ کے بڑے فرزند ہیں ، چھوٹے صاحبزادے حافظ خورشید احمد درانی بانی جامعہ سراج الاسلام خانپور اللہ کو پیارے ہو گئے ، قبلہ مفتی مختار احمد صاحب کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا احسن مختار درانی وفات پا گئے ۔ جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادگان میں صاحبزادہ مفتی مظہر مختار درانی ، صاحبزادہ اجمل مختار درانی ، صاحبزادہ اظہر مختار درانی ، صاحبزادہ اشرف مختار درانی، صاحبزادہ ارشد مختار درانی اور صاحبزادہ راشد مختار درانی مدرسہ سراج العلوم کی چھاؤں میں دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ قبلہ حافظ سراج احمد دیوان فرید کے شارح بھی تھے اور حافظ بھی ۔ انہوں نے اپنی تقریر کے ذریعے سرائیکی زبان کو بھی آگے بڑھایا اور خواجہ فرید سئیں کی سوچ اور فکر سے بھی لوگوں کو پہنچان دی ۔ حافظ صاحب کی آخری تقریر کی بات کروں گا ، نہ مجھے ان کی شکل بھولتی ہے اور نہ ان کی آخری تقریر ۔ آخری تقریر میںحافظ صاحب نے فرمایا کہ ’’ اب ہمارے آخری دن ہیں کہ زندگی موت کی امانت ہے اور ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘۔ قبلہ حافظ صاحب کی تقریر میں سوز و گداز تھا۔ جس وقت تقریر شروع کی ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں رواں ہوگئیں ۔ آخری تقریر کے وقت آپ بھی بہت روئے ، جماعت کو بھی رُلایا ۔ واقعہ ایسے ہے کہ حافظ صاحب کے مدرسے سراج العلوم میں ایک پرانا ویران کنواں تھا ۔ ایک طالب علم کی ٹوپی اس میں گر گئی، وہ بچہ ٹوپی لینے گیا تو دوبارہ نہ آیا۔ کنویں میں گیس بھری ہوئی تھی ‘ دوسرا بچہ بشیرا حمد اس کو نکالنے گیا تو وہ بھی نہ آیا ‘ تیسرا بچہ حافظ خورشید احمد اپنے ہم جماعتوں کی جدائی نہ سہہ سکا اور وہ بھی ان کے پیچھے گیا تو موت نے اسے بھی آ لیا ۔ دوسرے دن جمعہ تھا ۔ قبلہ حافظ صاحب کے دل پر اس صدمے کا گہرا اثر تھا ۔تقریر سے پہلے ہی آنسوؤں کی برسات جاری تھی ۔مجھے یاد ہے کہ انکی رحلت سے قبل جمعہ کے خطبہ میں قبلہ حافظ صاحب کی زبان پر خواجہ فرید کے یہ اشعار تھے : گزریا ویلھا ہسنْ کھلنْ دا آیا وقت فرید چلنْ دا اوکھا پینڈا دوست ملنْ دا جاں لباں تے آندی ہے میں نے پہلے کہا کہ قبلہ حافظ سراج احمد درانی المعروف سراج اہلنست کا آخری جمعہ کا خطاب تاریخی بھی تھا اور یادگار بھی ، اس خطاب میں انہو ںنے اپنی موت کے بارے میں بتا دیا تھا ۔ اگلے دن 12 جون 1976ء بروز ہفتہ صبح آپ کا وصال ہوا ۔ جس طرح عربی کا ایک مقولہ ہے کہ ایک عالم کی موت سارے عالم کی موت ہے۔ اس طرح قبلہ حافظ سراج احمد درانی کی وفات صرف خانپور ہی نہیں پورے وسیب کے لئے صدمے کا باعث ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ خانپور میں مدرسہ سراج العلوم اور مدرسہ مخزن العلوم کے درمیان فرقہ ورانہ اختلاف ہمیشہ عروج پررہا مگر قبلہ حافظ سراج احمد کے جنازے میں مخزن العلوم کے مہتمم مولانا مطیع الرحمن درخواستی اشک بار آنکھوں کے ساتھ قبلہ حافظ سراج احمد کے جنازے میں شریک تھے ۔ قبلہ حافظ سراج احمد نے وصیت فرمائی تھی کہ جب میری وفات ہو تو تدفین سے پہلے صابر مبارکپور ی صاحب نعت پڑھیں چنانچہ وصیت کے مطابق صابر مبارکپوری نے نعت پڑھی تو قبلہ حافظ سراج احمد ؒکی آنکھوں سے بعد از مرگ بھی آنسوں رواں ہوئے ۔