28 جولائی (اتوار) کو الیکٹرانک میڈیا پر سنایا اور دِکھایا گیا اور 29 جولائی ( پیر کو) پرنٹ میڈیا پر ۔ تصویر کے مطابق شائع کِیا گیا کہ ’’ امیر جمعیت عُلماء اسلام ( فضل اُلرحمن گروپ) کو ئٹہ میں "Million March" کے شُرکاء سے خطاب کر رہے ہیں اور اُنہوں نے "Warning" دِی (انتباہ کِیا )کہ ’’ اگر حکومت ( مرکزی حکومت یعنی وزیراعظم عمران خان کی حکومت ) نے اگست تک استعفیٰ نہ دِیا تو جمعیت عُلماء اسلام ( ف) اپنی دوسری اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر اکتوبر میں اسلام آباد تک آزادی ؔمارچ کرے گی‘‘۔ معزز قارئین!۔ فضل اُلرحمن صاحب کی جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے عہدیداران اور کارکنان جب کسی شہر میں ’’ملین مارچ ‘‘ کے نام سے ، کوئی جلسہ کرتے ہیں تو مجھے جماعت اسلامی کے (مرحوم) امیر قاضی حسین احمد یاد آ جاتے ہیں۔ مختلف حکومتوں کے خلاف قاضی صاحب جب بھی کسی شہر میں جلسہ عام کرتے یا جلوس نکالتے تو ،اُسی روز الیکٹرانک میڈیا پر اور اگلے روز پرنٹ میڈیا پر سنایا اور شائع کِیا جاتا تھا کہ ’’ قاضی حسین احمد صاحب کے ملینؔ مارچ میں ہزاروںؔ افراد نے شرکت کی ۔ اِسی طرح کی خبریں سُن سُن کر اور پڑھ پڑھ کر ، انگریزی دان لوگ عام لوگوں کو بتاتے تھے کہ"Milion" تو دس لاکھ کا ہوتا ہے؟ اور جس جلوس میں ہزاروں لوگ ہُوں اُسے "Million March" نہیں کہا جاسکتا ہے؟‘‘۔ پھر کیا ہُوا کہ ’’ جماعت اسلامی کے شعبۂ اطلاعات و نشریات کے ناظمین نے مشہور قوال نصرت فتح علی خان کے گائے ہُوئے اِس مشہور گیت کے مطلع ’’سجن آ ! تَینوں اَکھیاں اُڈیک دِیاں!‘‘کو … ’’قاضی آ تَینوں اَکھیاں اُڈیک دِیاں ‘‘ کا’’ ملّی نغمہ ‘‘ تیار کرادِیا لیکن، نہ جانے کہ ’’ اُنہی دِنوں قاضی حسین احمد صاحب نے ’’غریبوں کے حق میں انقلاب ‘‘ لانے کے لئے کسے ڈرانا شروع کردِیا تھا کہ’’ ظالمو! قاضی آ رہا ہے!‘‘۔ پھر بھلا ظالم ؔلوگ اپنے خلاف انقلاب کیسے آنے دیتے ؟۔ معزز قارئین!۔ 6 اپریل 2007ء کو اسلام آباد کی جامع مسجد کے خطیب ( سرکاری ملازم ) مولانا عبداُلعزیز نے ’’ امیر اُلمومنین ‘‘ کا لقب اختیار کر کے اور اپنے چھوٹے بھائی ’’ نائب خطیب‘‘ (سرکاری ملازم ) غازی عبداُلرشید کو ’’ نائب امیر اُلمومنین ‘‘ مقرر کر کے ملک بھر میں شریعت کا نفاذ اور لال مسجد میں شرعی عدالت قائم کر کے (صدر جنرل پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق کی ) وفاقی حکومت کو وارننگ دِی تھی کہ ’’اگر اُس نے نفاذِ شریعت میں رکاوٹ ڈالنے اور لال مسجد اور اُس سے ملحقہ سے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کے خلاف کسی کارروائی کی کوشش کی تو،پورے پاکستان میں فدائی حملے ہوں گے‘‘۔ مصالحت کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ، صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے حکم پر 3 سے 11 جولائی 2007ء تک پاک فوج کو لال مسجد اور اُس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں پناہ گزین دہشت گردوں کے خلاف" "Operation Sunrise کرنا پڑا جس میں 103افرادمارے گئے اور پاک فوج کے 11 اہلکار بھی شہید ہُوئے۔ جس پر 12 جولائی 2007ء کو متحدہ مجلس عمل کے صدر ، قاضی حسین احمد ، سیکرٹری جنرل فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کی جمعیت عُلماء اسلام کے سینئر رُکن عبداُالغفور حیدری نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بمباری، امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید نہیں کہا جاسکتا‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ قاضی حسین احمد تو خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں لیکن، پاک فوج کی اعلیٰ کمان نے فضل اُلرحمن صاحب اور عبداُلغفور حیدری صاحب کے فتوے کے بارے میں فی الحال کوئی فیصلہ کیوں نہیں کِیا ؟۔ فضل اُلرحمن صاحب نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا کبھی اعلان نہیں کِیا۔ وہ تو، بڑی جماعتوں کے صدور یا وزرائے اعظم کے اتحادی کی حیثیت سے ’’ ڈنگ ٹپائو اور کام چلائو سیاست‘‘ کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ یہ بات "On Record" ہے کہ ’’ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود صاحب نے کہا تھا کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ، ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ اِس کے باوجود مفتی صاحب ،پاکستان کی سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے ثواب ؔ کمانے میں مصروف رہے؟۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان نے نومبر1964ء میں اعلان کِیا کہ ’’وہ 2 جنوری 1965ء کو صدارتی انتخاب کرائیں گے ‘‘۔ صدر محمدایوب خان خود اپنی کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے صدارتی امیدوار تھے ۔ اُن کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار ۔ اِس پر مفتی محمود صاحب نے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ عورت کسی اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں بن سکتی؟۔ مفتی محمود صاحب نے مادرِ ملّت ؒ کی بھرپور مخالفت کی لیکن، مفتی صاحب کے بعد فضل اُلرحمن صاحب نے اجتہاد ؔکِیا اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں اُن کی حمایت کرتے رہے۔ محترمہ کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دَور میں اُن کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ’’مَیں نے محترمہ وزیراعظم کو صاف صاف بتا دِیا ہے کہ ، خواہ آپ فضل اُلرحمن صاحب کو "State Bank of Pakistan" ۔ کی چابیاں بھی دے دیں ،پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہوں گے ؟‘‘۔ اِس پر کئی صحافیوں نے اُن سے پوچھا کہ’’ مولانا صاحب ! ۔ آپ وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر پر ہتک ِ عزت کا مقدمہ کیوں نہیں کردیتے؟تو، اُنہوں نے کہا کہ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دِیا ہے؟‘‘ ۔اِسی طرح جب11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے جناب عمران خان نے ، فضل اُلرحمن صاحب کی طرف سے میڈیا پر یہ پیغام بھجوایا کہ … ’’رقم بڑھائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں!‘‘ تو، اُنہوں نے یہ معاملہ بھی اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دِیا تھا۔ معزز قارئین!۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت اور ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے پرچم تلے 14 اگست 1947ء میں پاکستان قائم ہُوا تھا ۔ اُس روز پوری قوم یوم آزادی مناتی ہے لیکن، فضل اُلرحمن صاحب اپنے بزرگوں ( کانگریس نواز مولوی صاحبان) کی اقتداء میں یوم آزادی نہیں مناتے ۔ گزشتہ سال 8 اگست 2018ء کو اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ ہم (14 اگست کو ) یوم آزادیؔ کو ’’جدوجہد ِ آزادی ‘‘ کے طور پر منائیں گے‘‘۔ شاید اِسی لئے موصوف نے (14 اگست 2019ء سے پہلے) حکومت کو مستعفی ہونے کی "Warning" دِی ہے ؟۔ معزز قارئین!۔ فضل اُلرحمن صاحب کے لئے 14 اکتوبر بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ 14 اکتوبر 2019ء کو مفتی محمود صاحب کی 39 ویں برسی ہوگی ۔ کیا فضل اُلرحمن صاحب اِسی لئے چاہتے ہیں کہ اُن کی قیادت میں ’’آزادی مارچ‘‘ اکتوبر میں اسلام آباد میں داخل ہو؟۔ یاد رہے کہ ’’ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کئے گئے وزیراعظم نواز شریف کے "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتی صاحب کی 37 ویں برسی سے ایک دِن پہلے 13 اکتوبر 2017ء کو خصوصی تقریب میں ، وزیراعظم ہائوس اسلام آباد کی ایک دیوار میں نصب "Plaque" (دھات، چینی وغیرہ کی تختی ) کی نقاب کُشائی کی اور صحافیوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ’’ حکومت مفتی محمود صاحب کی ’’دینی ، قومی اور سیاسی خدمات‘‘ کے احترام میں ، کل 14 اکتوبر کو یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کردِیا ہے ؟‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرح مسلم لیگ کا ہر صدر قائداعظمؒ کی کُرسی پر رونق افروز ہوتا ہے ‘‘ ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو، کیا یہ فضل اُلرحمن صاحب کا کمال نہیں کہ ’’ 4 ستمبر کے صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جناب عارف اُلرحمن علوی کے مقابلے میں ، فضل اُلرحمن صاحب پاکستان مسلم لیگؔ کے امیدوار تھے ؟۔ یکم اگست سے 31 اکتوبر 2019ء تک وفاقی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے فضل اُلرحمن صاحب کی قیادت میں اُن کی جمعیت اورجمعیت کی دوسری اتحادی جماعتوں کے قائدین اسلام آباد میں کیا کیا کریں گے؟ کوئی بتلائے کہ، ہم بتلائیں کیا؟