دوراہے ہمیشہ اس کے سامنے آتے ہیں جو اپنے راستے سے واقف نہیں ہوتا۔ قوم خارجہ تعلقات اور معاشی مجبوریوں سے لڑھکتی ہوئی اس سطح پر آ پہنچی ہے کہ ہمیں ایک آخری موڑ کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک راستہ وہ ہے جو ہمیں پھر سے کرپشن کی وادیوں‘ جھوٹے اعداد و شمار اور قرض کی طرف لے جائے گا‘ بدلے میں دستار ہی نہیں اس بار سرگروی رکھنا ہوں گے۔ دوسرا راستہ تھوڑا مشکل‘ طویل اور پتھریلا ہے۔ طے کر لیا تو 20کروڑ سر اور ان کی دستاریں بلند رہیں گی۔’’قلم دوست‘‘ نے وزیر اطلاعات پنجاب برادرم فیاض الحسن چوہان کے ساتھ نشست رکھی تھی یہ شائستہ اطوار پڑھے لکھے اور مہذب کالم نگاروں کا حلقہ ہے بیت المال پنجاب کے سربراہ برادرم اعظم ملک نے طعام کا بندوبست کر رکھا تھا مگر فیاض الحسن چوہان کی گفتگو خود ایک پر لطف سوغات تھی۔ یہ والے فیاض الحسن بہت مختلف دکھائی دیے۔ شاید ٹی وی پر انہیں کڑوے کسیلے لشکروں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں سب ان کی بات سننا چاہتے تھے اور حکومت کی کارکردگی پر اپنی رائے بیان کرنا چاہتے تھے اس لئے ماحول میں منفی مسابقت موجود نہ تھی۔ فیاض الحسن چوہان ہمیں پتھریلے راستوں پر چلنے کے دوران ملنے والے زخم دکھا رہے تھے۔کوئی چاہے تو اربوں روپے بھک سے اڑانے کی بے شمار مثالیں پاکستان میں تلاش کر سکتا ہے‘ لیکن 70برس تک جو سیاسی و غیر سیاسی لوگ برسر اقتدار رہے یقین مانیں وہ حلوائی کی دکان پہ نانا جی کی فاتحہ پڑھتے رہے۔ ملک پر 100ارب ڈالر کا قرض چڑھ گیا۔ کہاں گئے یہ ڈالر‘دنیا بھر میں ہمارے رہنمائوں کی ملکیت جائیدادوں کو دیکھ لیں۔ جس کا جتنا زور چلا اس نے ملک کو لوٹا۔ بے نظیر بھٹو کے نام پر غریب عورتوں کی بہبود کا انکم سپورٹ پروگرام شروع ہوا۔ بے شک یہ قابل قدر منصوبہ ہے مگر ڈیڑھ لاکھ سرکاری افسر و اہلکار پچھلے کئی برسوں سے اپنی مائوں‘ بہنوں اور بیویوں کو دو تین ہزار ماہانہ کی یہ امداد کھلا رہے تھے۔ سندھ میں جنگلات کی زمینوں پر سیاستدان ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ عدالتیں چیخ رہی ہیں۔ پنجاب میں دس سال کے دوران اوقاف‘ متروکہ وقف املاک‘ جنگلات ‘ محکمہ انہار‘ ریلوے اور دیگر محکموں کی اراضی باربی کیو پارٹی سمجھ کر اڑائی جاتی رہی۔ سینکڑوں اور ہزاروں ایکڑ اراضی اپنے خاص لوگوں کو آسان لیز پر دی جاتی رہی۔ قرضے اور نوکریاں فروخت ہوئے یا پھر اپنے لوگوں کو تحفہ میں دیے گئے۔ میڈیا ‘سرکاری افسران ‘ تھانہ و پٹوار کو ساتھ بنا کر وارداتیں کی گئیں۔ حساب کرنے بیٹھیں گے تو کئی ٹائی ٹینک غرقاب ہو چکے۔ وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان جب گزشتہ 35برس سے برسر اقتدار جماعتوں کے مقابل اپنی 16ماہ کی کارکردگی بیان کر رہے تھے تو محسوس ہوا کہ وہ ماضی کے مسائل سے جلد نجات چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ حکومت نے اب تک کس شعبے میں بہتری دکھائی؟ ’’تجارتی خسارے میں 40فیصد کے لگ بھگ کمی آئی‘ ریلوے کا خسارہ کم ہوا‘ پی آئی اے کا خسارہ کم ہوا۔ اقتدار کے پہلے برس 10ارب ڈالر بیرونی قرض کی اقساط میں ادا کئے۔ ملک کے معاشی مسائل کے باوجود ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا۔ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کو سلامتی کونسل سمیت ہر جگہ مشکل میں ڈالا‘ بھارت کے طیارے گرا کر اس کی طاقت کا غرور مٹی میں ملا دیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے افسران کا پتہ چلایا‘‘’’قلم دوست‘‘ کے احباب کی وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان سے ساتھ نشست اس لحاظ سے مفید رہی کہ کچھ معاملات کے پس پردہ حقائق کو سمجھنے میں آسانی محسوس ہوئی۔ فیاض الحسن چوہان نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تو ان کے علم میں وہ تمام حقائق آنے لگے جن سے قبل ازیں آگاہ نہ تھے۔ سابق چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود ملنے گئے تو وزیر اعظم نے برملا کہا کہ ’’ اگلے انتخاب میں کوئی جماعت بھی جیتے خراب معاشی حالت اس کی حکومت کو 6ماہ سے زیادہ چلنے نہیں دے گی‘‘۔ تحریک انصاف اس خراب معاشی حالت کے ساتھ 16ماہ سے اصلاح احوال کی جدوجہد کر رہی ہے۔ سیاسی تعصب مگر اس سطح پر آ پہنچا ہے کہ مسلم لیگ ن یہ اعتراف کرنے کو تیار نہیں کہ اس کی پالیسیوں نے ملک کی آزادی چھین لی۔فیاض الحسن چوہان بتا رہے تھے کہ بہت سے مشہور صحافی سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرتے ہیں۔قلم دوست کے چیئرمین ایثار رانا نے نکتہ اٹھایا کہ اب بھی حکومت ان صحافیوں کو اہمیت دیتی ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب نے اپنے قابل اعتماد ڈی جی پی آر اسلم ڈوگر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھیے ہم کس طرح کے مافیاز سے لڑ رہے ہیں۔ لوگ سرکار کو گالیاں دے کر اشتہارات لینے کے عادی تھے اب انہیں اتنا حصہ مل رہا ہے جس کے وہ قانونی طور پرحقدار ہیں‘ کارکن صحافیوں کے مسائل پر بات ہوئی۔ کئی اچھے فیصلوں کا علم ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا کے اپنے مسائل ہیں وہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رواج ہے۔ پرنٹ میڈیا آج بھی تحمل اور شائستگی کا دامن تھامے ہوئے ہے۔ دس بارہ لوگوں نے گفتگو میں حصہ لیا‘ حریم شاہ سے فواد چودھری کے تھپڑ تک پر بات ہوئی مگر متانت برقرار رہی۔ یہ ماحول الیکٹرانک میڈیا پر متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ نشست کے بعد مجموعی تاثر مثبت تھا۔ فیاض الحسن چوہان اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پرجوش ہیں‘ ہمیں لگا کہ ان سے مزید نشستوں کا اہتمام ہونا چاہیے کہ ہمارے خواب و خیال میں غلے‘ اشجار اور پھلوں سے بھرا جو پنجاب ہے‘ اسے میٹرو بس‘ اورنج ٹرین‘ کاروں کے رش‘ ناقص منصوبہ بندی کی شاہکار بلند عمارتوں کے جنگل سے نکال کر سرسوں کے پیلے کھیت میں کھڑا کر دیں۔جہاں خوشحالی‘ امن اور محبت کی ہوائیں رقص کرتی ہوں۔فیاض الحسن چوہان خود کالم نگار ہیں۔ ان کی نذر احمد ندیم قاسمی کا شعر: یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں