بالآخر وہ فیصلہ آ گیا جس کا انتظار عام طور پر جب نچلی عدالتیں قید کی سزا سناتی ہیں تو اعلیٰ عدالت فوراً ریلیف دیتی ہے تاکہ انصاف کا خون نہ ہو۔ اگر سزا پانے والا مجرم نہیں اور اسے اپیل کا حق ہے تو حتمی فیصلے سے پہلے وہ خواہ مخواہ اپنی آزادی کا بلیدان کیوں دے۔ انصاف اور انسانی حقوق کا تقاضا یہی ہے مگر نیب کا قانون ’’وکھری ٹائپ‘‘ کا ہے۔ وہاں ایک طرف بار ثبوت اس پر ہے جس پر الزام لگایا جائے، دوسری طرف اس کی سزا پر اپیل تو ہوسکتی ہے ضمانت نہیں۔ اس کا قانونی طریقہ یہ نکالا گیا ہے کہ ضمانت کی اپیل نہیں کی جاتی بلکہ سزا کو معطل کرنے کے لیے رٹ ہوتی ہے۔ اس کا پراسس قدرے طویل ہوتا ہے۔ نوازشریف کے حوالے سے یہ کچھ زیادہ ہی طویل ہو گیا۔ اس دوران مقدمے کی کارروائی نے بہت کچھ اگل دیا، کئی نکتے اٹھائے گئے، بہت سی باتیں سمجھ آئیں، اس لیے قانونی تقاضے تو پورے کئے ہوں گے، اس کے ساتھ شعور بھی پیدا ہوا ہے۔ لوگ سوچنے لگے ہیں، کیا اس طرح بھی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ اس فیصلے پر دو ردعمل ہیں۔ ایک تو احسن اقبال کا جنہوں نے کہا ہے کہ یہ سارا کھیل نوازشریف کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کے لیے کھیلا گیا۔ یہ پری پول رگنگ تھی اور آج کا فیصلہ پی سی او انصاف کا مظہر ہے۔ یہ مسلم لیگ کی طرف سے اپنے پرانے موقف کا اعادہ ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر نے تبصرہ کیا کہ اس سے یہ ثابت تو نہیں ہوتا کہ وہ مجرم نہیں ہیں، سزا معطل ہوئی ہے وہ رہا تو نہیں ہوئے، رہا ہوں گے بھی تو ان کی واپسی دوبارہ اڈیالہ جیل ہی میں ہوگی۔ ان کا پیغام یہی ہے کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم یہ سیاسی بیانئے فی الحال معطل کردیں۔ نوازشریف یقینا پرعزم ہیں، تاہم اس وقت وہ جس صورت حال سے دوچار ہیں جن میں ذاتی المیے بھی شامل ہیں، اس کے پس منظر میں مناسب ہوگا ان کی پارٹی ابھی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پرجوش نہ ہو۔ اگرچہ یہ بات یقینی ہے کہ اس سے پارٹی کو خودبخود سیاسی فائدہ پہنچنا ناگزیر ہوگا۔ دوسری طرف حکمران جماعت کو بھی ذرا تحمل اور عقل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں جیسے کیسے اقتدار تو مل گیا ہے، اب بیوقوفیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹی سے پہلے ہی لطیفے سرزد ہو رہے ہیں، اب اس فیصلے پر انہیں احساس ہو جانا چاہیے کہ اسے اچھالنا ان کے مفاد میں نہیں ہوگا، ویسے آپ کی مرضی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی نے اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کے نوٹس لے رکھے ہیں اور وہ ان کی مدد سے ایک بیانیہ ترتیب دے کر چھاپ دے، تو نہ صرف بہت سے حقائق سامنے آئیں گے، بلکہ یہ بھی پتا چلے گا کہ اگر کسی معاملے کو بڑی زیرکی سے دیکھا اور پرکھا جائے تو کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے صاف دکھائی دیتا تھا کہ نیب عدالت عالیہ میں اپنے موقف کا دفاع نہیں کر پا رہی۔ یوں لگتا تھا کہ احتساب کے اس ادارے کے پائوں لڑکھڑا رہے ہیں، آخر آخر میں تو نیب کے وکیل بھنائے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ دیکھئے، ملک کا نظام یوں ہی چلتا رہے گا۔ اس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ بعض باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ نوازشریف کا اب ملکی سیاست میں کوئی مقام نہیں ہے مگر ان کے لیے مریم نواز اس سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ وہ تو کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ معاملات اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ عالمی سطح پر بھی اس صورت حال کو قبول کرلیا گیا ہے، ایک اس سے زیادہ سخت بات بھی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں یوں لگتا تھا کہ ہماری اقتصادی اسٹیبلشمنٹ سی پیک کو رول بیک کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کسی نے کہا، شاید یہ ممکن نہ ہو۔ نوازشریف کی قربانی کم از کم یہ کام تو کر گئی ہے کہ وہ سی پیک کو بچا گئی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ سی پیک کی مخالفت کرنے والے یہ کہتے پائے گئے کہ سابقہ حکومت نے چین سے غیر شفاف معاہدے کئے ہیں، ان پر ازسرنو غور ہونا چاہیے۔ بہت کچھ کھایا کمایا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ غیر شعورری طور پر امریکی لابی کے اکانومسٹوں نے سی پیک کا سارا کریڈٹ نوازشریف کی جھولی میں ڈس کریڈٹ سمجھ کر ڈال دیا اور اسے ایک سیاسی مسئلہ بنا دیا تھا۔ وہ اس بات کی ترغیب دے رہے تھے کہ اس سارے منصوبے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ ایسا ہوتا تو سیاسی طور پر پر قیامت آ جاتی۔ اس غیر محبانہ اقدام سے حکمران طبقے کو بہت نقصان پہنچا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاناما کیس کرپشن کا مقدمہ ہے ہی نہیں، بلکہ اس کا مقصد اس بیانئے کو شکست دینا تھا جو سارا طریقہ حکمرانی بدل کر رکھ دینا چاہتا تھا۔ سی پیک بھی اس بیانیے کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ بہرحال، یہ ایک اچھی بات ہے کہ الیکشن کے بعد اب بات ذرا اعتدال کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ویسے طرح طرح کے نقشے کھینچے جا رہے ہیں۔ سنا ہے سعودی عرب جو امداد ہمیں مبینہ طور پر دے گا، اس کے پیچھے بھی کچھ ایسی کہانی ہے۔ طرح طرح کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ خدا لگتی کہوں، جب یہ سوشل میڈیا پر پرزے نکال رہا تھا، اس وقت بھی جہاں اس بات کی خوشی ہوتی تھی کہ ہم آزادی کی نئی دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔ وہاں باطن میں ایک خوف کے سائے جھلکتے تھے کہ جب آزادی کا تصور ذمہ داری سے منسلک نہ ہو تو یہ تباہی لاتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ میری آزادی اس وجہ سے ہے کہ میں ذمہ دار ہوں۔ اگر میں ذمہ دار نہیں تو میں آزاد نہیں ہوسکتا۔ سوشل میڈیا ایسی ہی غیرذمہ داری کا بدترین نمونہ بن چکا ہے۔ اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے لوگوں کے ذہن کتنے زرخیز ہیں۔ ان میں تخلیق کے کیسے جوہر پنہاں ہیں مگر اس غیر ذمہ داری کی وجہ سے یہ زرخیزی اور یہ جوہر تخلیق بعض اوقات قیامت ڈھا جاتے ہیں۔ اس مقدمے کے حوالے سے اس ملک میں جو سیاست ہوئی، اس نے ایسا ہی حشر بپا کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت ہم جس آزادی جمہوری فضا میں سانس لے رہے ہیں، وہ ایک طرح کی غیرذمہ داری کا نتیجہ بھی ہے۔ وہ غیر ذمہ داری جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا رنگ دکھایا۔ یہ غیر ذمہ داری خوبصورت بھی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے ذہن کی زرخیزی اور تخلیق کاری کے سوتے ہیں۔ یہ درست مگر اس کی مضرت رسانی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ میں کوئی خطبہ لکھنے بیٹھ گیا ہوں یا کم از کم کسی سنجیدہ اخبار کا ادار یہ لکھ رہا ہوں۔ جب ہم ایک دور کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور اس وقت اس کی باقیات سمیٹ رہے ہیں جس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جہاں تک مجھے اندازہ ہے، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی مگر اس ہیجان کو ختم ہو جانا چاہیے جو اس لڑائی کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوا۔ یہ ہیجان یوں تو دونوں طرف ہے مگر اس کا زیادہ مظاہرہ ان کی طرف سے ہوا ہے جو اس کے نتیجے میں برسراقتدار آتے ہیں حالانکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان انہیں ہی ہوگا۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے جو چیلنج ہے، اسے صرف باتوں سے نہیں نپٹا جا سکتا اور اگر ہم ان باتوں کے بکھیڑوں میں غیر ذمہ دار بھی ہوں تو اس سے کار حکومت نہیں چلا کرتا۔ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے اپنی بے گناہی تو ثابت کرنا ہی ہے۔ انہوں نے اپنا مقدمہ تاریخ کے منہ زور ریلوں کے سپرد کرکے فارغ نہیں بیٹھنا۔ انہیں کشتی کھینا پڑے گی، طوفانوں سے لڑنا پڑے گا۔ آپ نے انہیں موجوں کے سپرد کردیا، ان سے سلامت گزرنے کی سعی کرنا ان کا حق ہے، تاہم آپ کی کشتی تو پار لگ چکی ہے۔ آپ کا پلٹ پلٹ کر گہرے پانیوں میں اس لیے جانا کہ مخالف وہاں موجود ہیں، خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو میں یہ بات کھل کر کہتا آیا ہوں کہ نوازشریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ تاہم میں کبھی اس کے حق میں نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کا وقار اس پورے قضیے کی بھینٹ چڑھے۔ ہمارے بعض ادارے ہمارے وقار کی علامت ہیں۔ ہمارے وقار ہی کی علامت نہیں بلکہ قوم کو ان پر ناز ہے۔ یہ خطہ وہ خطہ ہے جس نے دنیا کو بہترین فوجی دیئے۔ یہ فوج ہمارا ہی مان نہیں ہے بلکہ تقسیم ہند سے پہلے بھی اس خطے کی فوج کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ دنیا میں انسانی قدروں کو سربلند کرنے کے لیے یہاں کے جوانوں کی قربانیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہاں کے لوگ اس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ یہاں ایک منظم نظام عدل موجود ہے۔ یہاں کے عدالتیں نہ کنگرو کورٹس تھیں نہ ماما جی کی عدالتیں۔ وہ اصول قاعدے کی پابند رہی ہیں۔ درست انہوں نے کچھ سیاسی فیصلے ایسے کئے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک میں جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا۔ ایسا تو فوج نے مارشل لا لگا کر بھی کیا۔ یہ سب ایک بڑے منظر نامے میں گم ہو جاتا ہے، اگر یہ منظر نامہ خوبصورت ہو تو۔ فوج اور عدلیہ ہی نہیں ہمیں تو اپنی سول سروس کے بارے میں بھی یہ اعتماد تھا کہ کسی غلام ملک میں ایسی مضبوط، ذہین اور باہمت بیوروکریسی شائد ہی ملتی ہے۔ ہمارے باقی ادارے بھی اپنی شان رکھتے تھے۔ ہماری پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری پارلیمنٹ کی طرح سر اٹھا کر چلتی دکھائی دیتی تھی اگرچہ اس کی کوتاہیاں بھی بے شمار تھیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تاریخ میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ الیکشن کے بعد حالات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ نوازشریف اس حد تک قومی دھارے میں شامل ہوں کہ یوں دکھائی نہ دے کہ انہیں اس طرح نکال کر باہر کیا گیا ہے جس طرح مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگرچہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ انہیں سیاست میں کوئی کردار نہیں لینے دیا جائے گا، مگر ایسا ہوتا نہیں ہے کہ اب ملکی سیاست کو مصنوعی طور پر چلانے کی کوشش کریں۔ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ مشرف نے کتنی کوشش کی کہ بے نظیر اور نوازشریف کو سیاست سے باہر رکھا جائے۔ آج وہ ملک سے بے باہر بیٹھے عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ نے ان کی مرضی کے مطابق سفر نہیں کیا اور نہ مستقبل میں ایسا کرے گی۔