لاہور کے ہسپتال پر وکیلوں کے حملے سے کئی حلقے حیران رہ گئے کہ یہ کیا ہوا۔ لیکن دیکھا جائے تو حیرت کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ ملک اور معاشرے کو 2014ء سے مارو‘ مار دو‘ پکڑ لو‘ جلا دو کے جس راستے پر ڈالا گیا یہ اسی کا ایک سنگ میل ہی تو ہے جو عبور ہوا۔ زیادہ اور وسیع تر سچ یہ ہے کہ اس راستے پر سفر کا آغاز 2014ء سے بھی سات سال پہلے2007ء میں وقت کے نجات دہندہ نے کر دیا تھا جب انہوں نے کراچی میں اپنے حامیوں کو جسٹس افتخار چودھری کے استقبال پر حملے کا حکم دیا تھا۔ کچھ لوگوں کو ہسپتال پر حملے سے بھی زیادہ حیرت تب ہوئی جب وزیر اعظم نے اس معاملے میں پنجاب حکومت کی کارکردگی کی تعریف کی۔ لوگوں کو حیرت یہ تھی کہ اس معاملے میں پنجاب حکومت تو کہیں نظر ہی نہیں آئی۔ وکلا نے حملے کا انتباہ بہت پہلے سے کر رکھا تھا۔ وہ آئے‘ طویل مسافت طے کی اور ہسپتال پر حملہ آور ہوئے۔ کسی نے انہیں راستے میں نہیں روکا۔ ہسپتال میں بھی پولیس نے تب مداخلت کی جب وہ اپنا مشن مکمل کر کے واپس جانے والے تھے۔ پنجاب حکومت اس کی پولیس اور اس کی انتظامیہ ان طویل گھنٹوں کے دوران اجتماعی طور پر لاپتہ رہیں۔ پھر وزیر اعظم کے’’خراج تحسین‘‘ پر حیرت بظاہر اتنی بے جا نہیں لگتی۔ لیکن حیرت میں گم یہ حلقے بھول گئے کہ وزیر اعظم اس سے قبل اپنی معاشی ٹیم کی ’’کارکردگی‘‘ کو بھی خراج تحسین پیش کر چکے ہیں۔ اگر اس پر حیرت نہیں ہوئی تو پھر ہسپتال والے واقعہ پر حیرت بھی غیر ضروری اور بے منطقی ہے۔ ٭٭٭٭٭ معاشی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے تجارتی خسارہ کم یا ختم کر دیا۔ اس کارکردگی پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ کوئی مریض کسی ڈاکٹر صاحب کے زیر علاج تھے۔ صحت اچھی ہونے کے بجائے بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔ لواحقین شکوہ کرتے‘ ڈاکٹر جلد اچھی خبر آئے گی کی تسلی دے دیتا۔ ایک دن مچھروں نے یلغار کی اور مریض کو کاٹ کاٹ کر ’’سرخا‘‘ بنا دیا۔ چہرے پر بھی خوب لالی آ گئی۔ ڈاکٹر نے کہا‘ دیکھا ‘ میں نہ کہتا تھا کہ میری دوائی اثر کرے گی۔ یہ لو‘ مریض کا چہرہ کیسا سرخ و سفید ہو گیا۔ تجارتی خسارہ کیسے کم ہوا‘ ضروری درآمدات کو جبری کم کر کے۔ ان ضروری درآمدات کے خاتمے سے کتنے کارخانے بند ہوئے۔ معاشی بحران کتنا اور بڑھا‘ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟ان سوالوں کا جواب چھوڑیں‘ یہ دیکھیں کہ مریض معیشت کا چہرہ کیسا سرخ و سفید ہو رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کی ’’کامیابیوں‘‘ کا عنوان ایک ہی فقرے میں دیا جائے تو وہ یہ ہو گا کہ غریب کا چولہا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ چولہا ماضی میں محاورۃً ٹھنڈا ہوتا تھا‘ اب لغوی اور حقیقی معنوں میں ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ دسیوں لاکھ بے روزگار ہو گئے اور معاشی ماہرین کی خوشخبری ہے کہ ’’انصاف‘‘ کے دو سال مکمل ہوتے ہوئے مزید 60لاکھ افراد خط غربت سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ اسی سے آپ حساب لگا لیجئے کہ کتنے مزید گھروں کے چولہے مزید ٹھنڈے ہوں گے۔ ایک آدمی بے روزگار ہوتا ہے تو اوسطاً پانچ افراد بھوکے مرتے ہیں۔ کل جمع تفریق آپ خود کر لیں۔ قرضوں کا حساب کتاب اپنی جگہ بے مثال ہے محض ستمبر 2018ء سے ستمبر 2019ء تک دس ارب 80کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ ماضی کی اوسط پانچ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ یہ رقم کہاں غائب ہوئی؟ جس دن لیاقت علی خاں کے قتل کا راز کھل گیا‘ اس رقم کے غائب ہونے کا معمہ بھی شاید حل ہو جائے گا۔ اس سے پہلے تو امکان کم ہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ بیانات کی حد تک سارے معاملے خوش آئند ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں اچھے دن آنے والے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک کا بیان ہے‘ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ سٹیٹ بنک کی اپنی رپورٹ ہے کہ سال گزشتہ میں بیرونی سرمایہ کاری کی مالیت 5ہزار سات سو ملین ڈالر تھی۔ تحریک انصاف کے ایک سال کے خاتمہ پر یہ سرمایہ کاری محض اڑھائی سو ملین ڈالر رہ گئی۔5700اور 250کے فرق کو ہی شاید گورنر موصوف’’اعتماد‘‘ کی بحالی کا نام دے رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ حکومت کی کارکردگی تو ہسپتال پر حملے نے کھول کر بتا دی‘ اسلام آباد جو وفاقی وزیر داخلہ کی خاص قلمرو‘ وہاں کیا ہوا۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک طلبہ تنظیم کے ان ڈور پروگرام پر حملہ کر کے ایک کارکن کو شہید‘ درجنوں کو زخمی کر دیا گیا۔ حملہ آور لیڈیز والے دروازے سے اندر آئے‘ فائرنگ کی اور پولیس کو اطلاع تک نہ ہو سکی۔ جو ملزم پکڑے گئے‘ وہ پولیس نے نہیں پکڑے۔ طلبہ نے انہیں قابو میں لے کر پولیس کے حوالے کیا۔ قومی پریس نے لکھا ‘ دو طلبہ تنظیموں میں تصادم ہوا۔ یعنی آئندہ اگر ڈاکو گھروں میں گھس کر صاحب خانہ کو مار ڈالیں تو یوں لکھا جائے گا کہ دو گروہوں میں تصادم‘ گھر میں بیٹھے گروہ کا سرغنہ ہلاک۔ ٭٭٭٭٭