چند سوال ہیں جو ایک عام آدمی کے ذہن میں ابھر رہے ہیں: کیا ایک فیصلے کی بنیاد پر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک پیرا گراف کی بنیاد پر پورا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈالا جا سکتا ہے ؟ کیا ریفرنس دائر ہونے سے فیصلہ بھی خود بہ خود کالعدم ہو جائے گا؟ اگر فیصلے کا ایک پیرا گراف قابل عمل نہ ہو تو کیا اس بنیاد پر باقی فیصلے پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کا جواز دیا جا سکتا ہے؟ ایک پیرا گراف کی بنیاد پر کسی جج کو محض نالائق اور نااہل قرار دیا جاسکتا ہے اور ذہنی طور پر پاگل بھی؟ کیا ایک پیرا گراف کی بنیاد پر کسی شخص کو دشمن ملک کا ایجنٹ یا کسی نیٹ ورک کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی شخص کا میڈیکل ٹیسٹ کرائے بغیر اس کی ذہنی حالت کو بنیاد بنا کر ریفرنس لایا جا سکتا ہے؟ ذہنی معذور شخص کو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس کیسے بنا دیا گیا؟ کیا عدلیہ میں کوئی ایسا میکانزم موجود نہیں ہے کہ ذہنی طور پر معذور شخص اتنے اعلی عہدے پر فائز ہونے سے روکا جاسکے؟ کیا اس فیصلے کے خلاف اپیل کر نے کا قانونی راستہ موجود نہیں تھا ؟اورکیا اپیل کا قانونی راستہ اختیار کر کے فیصلے کو set aside نہیں کرایا جا سکتا تھا؟ کیا پانچ سال تک چلنے والے مقدمے کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا؟ کیا آئین میں آرٹیکل 6 موجود نہیں ہے؟ کیا آرٹیکل 6 ، آئین توڑنے سے متعلق نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے لیے چارجنگیں لڑنے والے کسی شخص پر آرٹیکل 6 کا نفاذ نہیں ہو سکتا؟ کیا پاکستان کے لیے جنگیں لڑنے والے شخص کو آئین معطل کرنے کا استثنیٰ حاصل ہوتا ہے؟ اگر کوئی شخص چالیس سال تک پاکستان کی خدمت کرے تو اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ کیا کوئی بھی شخص جو پاکستان کی خدمت کرنا چاہے مگر سربراہ مملکت نہ ہو تو کیا طاقت کی بنیاد پر آئین معطل کر کے خود کوملک کی خدمت کا موقع فراہم کر سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص ملک سے باہر جا کر جلا وطنی اختیار کر لے اور واپس آ کر اپنے مقدمات کا سامنا نہ کرے تو کیا اس کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کبھی نہیں آنا چاہیے۔ ملک میں واپس آ کر مقدمہ کے سامنا نہ کرنے والے شخص کا یہ اعتراض درست ہو سکتا ہے کہ مجھے سنا نہیں گیا؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں میرے خلاف تب تک فیصلہ نہ دیا جائے جب تک مجھے سن نہ لیا جائے ، اور چونکہ میں کبھی واپس ہی نہیں آنا چاہتا اس لیے میرے خلاف کبھی فیصلہ نہ دیا جائے۔ کیا کسی وفاقی وزیر کا یوں دھمکی دینا درست ہے کہ آگ سے کھیلنے والوں کو علم نہیں کہ وہ جل بھی سکتے ہیں ؟وفاقی وزیر نے کسے آگ قرار دیا،کسے ڈرایا اور کسے دھمکی دی؟ انور شعور نے کہا تھا: مباحثوں کا ماحصل فقط خلش ، فقط خلل سوال ہی سوال ہیں جواب ایک بھی نہیں کچھ اور سوال بھی ہیں جو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کی جانیوالی ملک کی خدمت کے حوالے سے اٹھائے جا سکتے ہیں۔ کیا پرویز مشرف کارگل کے مس ایڈوینچرکے ذمہ دار نہیں؟ کیا پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی اجازت اور ان کے علم میں لائے بغیریہاں تک کہ کور کمانڈرز کے علم میں لائے بغیر کارگل کا کمزور منصوبہ پلا ن نہیں کیا تھا؟ کیا پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ پہلے سے تیار نہیں کر رکھا تھا؟ کیا پرویز مشرف نے اپنے قریبی ساتھیوں جنرل محموداور جنرل عزیز سے کہہ نہیں رکھا تھا کہ اگر انہیں ان کے عہدے سے آئینی طور پر بھی ہٹایا گیا تو منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے؟ وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کیا آرمی چیف کو تبدیل کرنا ان کا آئینی حق نہیں تھا؟ دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کا اختیار پرویز مشرف کو کس نے دیا تھا؟ ہمیں پرویز مشرف کی جانب سے کی گئی ملک کی خدمت تو یا د ہے مگر کارگل سے لے کر12 اکتوبراور 12 اکتوبر سے لیکر 3نومبر کی ایمرجنسی تک کے اقدامات یاد نہیں۔ انور شعور ہی نے کہا تھا: قوی بھی ہے ضعیف بھی ہماراحافظہ شعور مزے تمام یاد ہیں، عذاب ایک بھی نہیں کچھ اور سوال بھی ہیں جو ارباب اختیار سے پوچھے جا سکتے ہیں: ہم کب تک دائروں میں گھومتے رہیں گے؟ کب تک جمہوریت مارشل لائوں کی بانہوں میں ڈری سہمی دبکی رہے گی؟ کب تک غیر جمہوری اقداما ت کے راستے میں بند باندھنے کی کوشش کرنے والوں کی کردار کشی ہوتی رہے گی؟ کب تک آئین توڑنے والوں کو سپورٹ کیا جاتا رہے گا؟ کیا اس بات پر سول اور ملٹری قیادت کا اتفاق نہیں کہ ملک کا مستقبل مستقل جمہوریت سے وابستہ ہے ؟ جب اس پر سب کا اتفاق ہے تو جمہوریت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے تمام ادارے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے کترا کیوں رہے ہیں؟ بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات دیے جانے چاہئیں ،لیکن بہت سے سوال ہیں جن کے جواب ان کے سوالوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا خیال جس کا تھا مجھے ، خیال میں ملا مجھے سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے