ایسی جسارت، ایسی جسارت؟صرف اقبال ؔ ہی ایسا کر سکتے تھے۔اس لیے کہ اپنی ہستی اور اپنی خاک سے اوپر اٹھ گئے تھے۔ زمین پر کہاں، وہ تو افلاک پر جیے۔ کرسی موجود تھی اور یوں تو منکسر مزاج مفکر کے پلنگ پر بھی براجمان ہو سکتے۔پنڈت جواہر لعل نہرو فرش پہ بیٹھ گئے۔ جواہر لعل کی شخصیت کا یہ پہلو دلکش تھا کہ اہلِ علم کے سامنے بچھ جاتے۔ ایک بار ابو الکلام سے ملنے گئے تو انہوں نے مصروفیت کا عذر کر کے ٹال دیا۔ وزیرِ اعظم نے برا نہ مانا۔ عربی زبان کا ایک مخطوطہ ہاتھ لگا۔ ابو الکلام نے کہا: صرف ایک شخص ایسا ہے، جو اس کی تصیح و تدوین کر سکتا ہے۔ یہ مولانا عبد السلام نیازی تھے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ابو الخیر کے استاد۔بے نیاز، من موجی۔ عطر بنا کر بیچتے۔ درگاہوں پر جاتے، قوالیاں سنتے مگر علم کا ایک بحرذخار۔ریاضی کے ایک لاینحل سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے دکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر تلاش کرتے ہوئے ایک درگاہ پر پہنچے۔ خان صاحب نے بجھی ہوئی آگ کا ایک کوئلہ اٹھایا، سڑک پہ لکیریں کھینچیں اور وضاحت کر دی۔ ہکا بکا، وائس چانسلر نے کہا: نظام حیدر آباد کا دربار ان کا مقام ہے۔ ایک بال توڑا اور کہا: خدا کی قسم نظام کا دربار اس بال سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ دوسری منزل کی کھڑکی کے سامنے مولانا نیازی تشریف فرما تھے۔ جواہر لعل کو دیکھا تو کہا: پنڈت جی! پھر کبھی۔ علم کی دنیا میں بھی کئی طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ وہ جو سطحِ آب پر تیرتے ہیں۔ وہ جو تہہ میں اتر کر موتی ڈھونڈ لاتے ہیں۔پھر وہ جو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اقبال ؔ وہی تھے۔ مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا ادراک۔ بیتے ہوئے زمانوں کا فہم، عالمِ اسلام کے تیرہ سو برس تو گویا ان کے سامنے کھلے پڑے تھے لیکن روم، یونان اور چین کی تہذیبوں کے بھی وہ شناور تھے۔ مشرق و مغرب کے ادب کو گھول کر پی لیا تھا لیکن پھر قرآن میں منہمک ہوئے تو اسی کے ہو گئے۔ سرکارؐسے ایسی والہانہ محبت کہ ان کا نام آتا تو آنکھیں بھر آتیں۔ صبح دیر تک تلاوت کیا کرتے۔ پروفیسر منور مرزا کو علی بخش نے بتایا تھا: دن میں کئی بار مصحف منگواتے۔ دیکھتے رہتے،حتیٰ کہ چہرے پر اطمینان اتر آتا۔ آخر عمر بینائی کمتر ہو گئی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنا کرتے۔ اس زمانے میں کسی نے پوچھا کہ اب شغل کیا ہے۔ کہا: آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قرونِ اولیٰ کی سیر کرتا ہوں۔ عالمِ خیال میں شاید دربارِ رسالتؐ میں بھی حاضر ہوتے۔ تاریخ کے خم و پیچ پہ سوچتے رہتے۔قوموں کے عروج و زوال اور قرآنِ کریم کی آیات پر۔ کیسی کیسی نعت لکھنے والوں نے لکھی ہے۔قصیدہ بردہ کے سائے اب تک دراز ہیں۔ خواجہ مہر علی شاہؒ کی نعت میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ بردہ کے معنی چادر کے ہیں۔ قصیدہ لکھا جا چکا تو شاعر نے خواب میں سرکارؐ کو دیکھا۔ ایک چادر انہیں عطا کی۔ فالج نے مدتوں سے بستر پہ ڈال رکھا تھا۔ سویر اٹھے تو بھلے چنگے تھے۔ پھر مولانا جامی ہیں۔ ایک ایک شعر میں ایسا درد اور ایسی وارفتگی ہے کہ دل پگھل جاتے ہیں۔ اقبال ؔمگر سرکارؐ کا ذکر کرتے ہیں تو ایک عجیب انداز اور لہجے میں خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے اور یہ کہ وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیئِ سینا اقبال ؔ کی شاعری کا آغاز یہ نہ تھا۔ ہر چند جوانی میں بھی ان کا اعتراف کیا گیا لیکن شاعری کے آغاز میں وہ بہت مختلف تھے۔ ہندوستان کا نغمہ گایا: اے ہمالہ، اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں بلکہ اس طرح کے اشعار بھی ہے حسینوں میں وفنا نا آشنا تیرا خطاب اے تلون کیش! تو مشہور بھی‘ رسوا بھی ہے پھر کوئی ایسی رات آئی، پھر کوئی ایسے دن طلوع ہوئے کہ یکسر وہ بدل گئے۔ایسا بھی ہوتا ہے،یک بارگی کبھی دل پر چوٹ لگتی ہے اور آدمی کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک حافظِ شیراز کو تک بند کہا جاتا۔ مشاعروں سے نکال دیے جاتے۔ ایک دن بابا کوہی کے مزار پر گئے۔ گریہ کیا اور اپنے رب سے یہ کہا: بارِ الٰہا ایک مصرعہ موزوں کے سوا میں نے تجھ سے کیا مانگا تھا۔ پھر شاعر کے دل و دماغ ہی بدل گئے۔ پھر وہ کلام اس کی روح سے پھوٹا کہ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے، جگمگاتا رہے گا۔ ماقصہء سکندر و دارا نہ خواندا ایم از ما بجز حکایتِ مہرو وفا مپرس میں دارا و سکندر کے قصے نہیں پڑھتا۔ مہر و محبت کے سوا مجھ سے کسی موضوع پر کوئی سوال نہ کرو۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی کوئی شب، ایسا ہی کوئی دن اقبال ؔ پہ گزرا ہوگا کہ یکسر وہ بدل گئے۔ جن موضوعات کو چھونے کی شاعر جرات نہ کر سکتے تھے، انہیں موضوع بنایا اور پانی کر ڈالا۔ سید سلیمان ندوی نے ان کی وفات پر کہا تھا: فلسفے اب ان سے نکالے جائیں گے، رہنمائی اب ان سے طلب کی جائے گی۔ حرف بحرف یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ عالمِ اسلام کا فکری امام آج بھی اقبال ؔ ہے۔ ایران کے ملک الشعرا بہار نے کہا تھا: پچھلی تین صدیوں میں اقبال ؔ سے بڑا شاعر پیدا نہیں ہوا۔ ستائش میں آخری درجے کی احتیاط برتنے والے سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ان کی وفات کے فوراً بعد کہا: قرآن ِکریم ان کے لیے شاہ کلید تھا، ہر تالا جس سے کھل جاتا۔ ایرانی انقلاب پر اقبال ؔ کے اثرات گہرے ہیں۔ مختار مسعود کے بقول انقلابی جدوجہد کے ہنگام ایرانیوں سے جب کہا جاتا کہ ان کے اپنے شاعر بھی ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک۔ جواب میں وہ کہتے کہ اس جدوجہد میں ہمارے وہ رہنما نہیں۔ حافظ و سعدی نہیں،اقبال ؔ ہی سوئے ہوئے دلوں کو جگاسکتا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جدوجہد کے ہنگام جیلوں میں اسیر افغان لیڈر اور دانشور اقبال ؔ کے اشعار ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر بھیجا کرتے۔ اہلِ کشمیر ان کے نغمے گاتے ہیں اور وسطی ایشیا بھی۔ ایک ہمی ہیں، ایک ہم پاکستانی ہیں، جنہوں نے ان سے اکتسابِ نور نہ کیا۔ اپنے عہد ہی میں امام تسلیم کیے جانے کے باوجود خاکساری نہ صرف قائم بلکہ بڑھتی رہی۔ تہبند باندھے، بنیان پہنے صحن میں بیٹھے رہا کرتے اور سرما میں بنیان کے اوپر ہی گرم دھسہ اوڑھ لیتے۔ ہر عظیم شخصیت میں کوئی غیر معمولی وصف ہوتا ہے۔ اقبال ؔ کا وصف ان کا درد تھا۔ ایسے یکسو کہ باید و شاید۔ خود کہا تھا: اے پروردگار میری فکر کا سرچشمہ اگر قرآن نہیں تو روزِ محشر مصطفیؐ کے بوسہ ء پا سے مجھے محروم کر دینا۔ایسی جسارت، ایسی جسارت؟صرف اقبال ؔ ہی ایسا کر سکتے تھے۔اس لیے کہ اپنی ہستی اور اپنی خاک سے اوپر اٹھ گئے تھے۔ زمین پر کہاں، وہ تو افلاک پر جیے۔