پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ 2005ء میں آیا‘اس ہیبت ناک زلزلے میں ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے‘تین لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے اور اربوں کی املاک کو نقصان پہنچا۔اس زلزلے نے پاکستان سمیت عالمی دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔عالمی طاقتیں پاکستان کی طرف دوڑیں اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے بیرونی این جی اوز اور سرکاری اداروں کی طرف سے مالی امدادی آنا شروع ہو گئی۔ایک اندازے کے مطابق وہ امداد اس قدر تھی کہ اگر ایمان داری سے متاثرین میں تقسیم ہوتی تو آج وہ سارے علاقے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو چکے ہوتے مگر صد حیف کہ ایسا نہ ہوا۔مجھے اس وقت زیادہ حیرانی اور افسوس ہوا جب دس سال 2015 ء کے بعد مجھے انہی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا‘ہزاروں خاندانوں کو دس سال بعد تک بھی گھر میسر نہیں آئے تھے‘زلزلے کے اثرات دس سال بعد بھی دیکھے جا سکتے تھے اور ان لوگوں کی محرومیاںختم ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہو گئیں تھیں۔وہاں کے دوستوں کا کہنا تھا کہ زلزلہ میں مرنے والوں کی چیخیں آج بھی ان وادیوں سے سنائی دیتی ہیں۔زلزلے میں پھنسے لوگ آج بھی ہمیں دکھائی دیتے ہیں‘ہم سے پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے ریاست اور کہاں ہے ریاستی مسیحا؟۔میں نے اس وقت کالم میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہماری سرکار قوم کو بتا سکتی ہے کہ زلزلہ متاثرین کے لیے اربوں کی مالی امداد جو پاکستان اور بیرونِ ممالک سے اکٹھی ہوئی تھی‘وہ کہاں اور کیسے تقسیم ہوئی۔اگر دس سال گزرنے کے بعد بھی وہ متاثرین کسی مسیحا کے منتظر ہیں‘تو ہمیں پورا حق ہے کہ ہم اپنی حکومتوں سے یہ سوال کریں ۔ 2010ء میں سیلاب آیا‘ سندھ کے درجنوں علاقے اور بستیاں ڈوب گئیں‘عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا چوتھائی حصہ اس سیلاب کی نذر ہو گیا تھا۔اس سیلاب میں سندھ اور خیبر پختونخوا کا تقریباً چالیس فیصد علاقہ زیر آب آیا تھا‘ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے اور لاکھوں ایکڑ رقبہ پانی سے متاثرہوا‘ اس سیلا ب میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی ۔اس سیلاب کو پاکستانی اداروں نے ’سپر فلڈ‘ اور اقوام متحدہ نے’ سونامی‘ قرار دیا تھا کیونکہ 2010ء کے اس حیران کن سیلاب میں پاکستان کے 78 اضلاع متاثر ہوئے تھے‘سندھ اور خیبر پختونخوا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا تھا اور مجموعی طور پر دو کروڑ کی آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوئی تھی۔آپ موجودہ سیلاب کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ سیلاب 20`10ء سے دو گنا زیادہ بڑا ہے‘2010ء میں پاکستان کے 78 اضلاع متاثر ہوئے تھے اور آج ایک سو تیس سے زائد اضلاع سیلاب سے تباہ ہوچکے۔2010ء کے سیلاب کی تباہی کا تخمینہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ تقریباً دس سے بارہ ارب ارب ڈالر کا مالی نقصان ہواتھا‘محکمہ موسمیات کے مطابق 2010ء کا سیلاب ’دریائی سیلاب‘تھا جبکہ 2022ء کا سیلاب’فلیش فلڈ‘ ہے۔این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ 2010ء کا سیلاب اتنا غیر متوقع تھا کہ ہماری بالکل بھی تیاری نہیں تھی جبکہ حالیہ سیلاب کے حوالے سے این ڈی ایم اے کو دعویٰ ہے کہ متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو بروقت آگاہی دے دی گئی تھی مگر اس کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔2010ء کے سیلاب متاثرین کیے لیے امریکہ‘چین‘ایران اور ترقی سمیت کئی ممالک نے اربوں کی مالی امداد اور سامان متاثرہ علاقوں کے لیے بھیجا تھا‘حیرانی اس وقت ہوئی کہ جب بیرونِ ممالک اور این جی اوز کی طرف سے بھیجا گیا سامان پاکستان کی مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت ہوتا رہا‘آفت زدہ لوگ بھوک اور پیاس سے بلکتے رہے اور ہماری سرکاری گودام بیرون ممالک اور این جی اوز سے ملے سامان سے بھرے پڑے رہے جیسے کچھ روز قبل راج پور میں گندم سے بھرے دو گودام پکڑے گئے۔2010ء میں اکٹھی ہونے والی مالی امداد اور سازو سامان کا آج تک آڈٹ نہیں ہوا‘آج تک حکومتی اداروں نے عوام کو اعتماد میں نہیں لیا کہ امداد کیسے اور کہاں تقسیم ہوئی؟عوام آج تک 2010ء میں آنے والی امداد پر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ آج 2020ء میں کوئی پاکستانی کسی سرکاری ادارے پر بھروسہ نہیں کر رہا۔ سائباں تحریک کی ٹیم (حسین مجروح‘آفتاب جاوید‘خالد شیخ‘طاہراہ سرا)کے ساتھ امدادی کیمپوں اور ڈور ٹو ڈور کمپین کے دوران حیران کن عوامی رویہ دیکھنے کو ملا‘جس گھر کا دروازہ بجاتے ‘سب سے پہلے یہی پوچھا جاتا کہ آپ یہ امداد خود پہنچائیں گے یا سرکار کے حوالے کریں گے‘اگر تو سرکار کے حوالے کریں گے تو ہم امداد نہیں دیں گے کیونکہ ہمیں سرکار پر قطعاً بھروسہ نہیں ۔اس سے زیادہ سرکار کے لیے شرمندگی کی بات اور کیاہو سکتی ہے کہ یہ قوم اس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں‘عوام کو یہ تاثر کس نے دیا کہ بیرون ممالک سے ملنی والی امداد جو حکومتی اداروں کو دی جاتی ہے ‘وہ متاثرین تک پہنچنے کی بجائے سرکاری گوداموں کی زینت بنتی ہے اور بعد میں اس کی بولیاں لگتی ہیں‘ ایک اسکینڈل 2010ء کے سیلاب کے بعد سامنے آیا تھا جب بٹر آئل پاکستانی مارکیٹوں میں مہنگے داموں فروخت ہوا اور لوگ یہ سوال پوچھتے رہے کہ یہ آئل یہاں کیسے اور کب پہنچا مگر پاکستانی سرمایہ داروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔اب وقت ہے کہ سرکاری ادارے اور پاکستانی این جی اوزاپنا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال کریں‘سرکاری اداروں‘اندرونی اور بیرونی این جی اوز یا تنظیموں کو جتنی امداد مل رہی ہے وہ بھی اور جو حکومت کو چھ ملکوں سے تیس سے زیادہ طیارے سامان پاکستان پہنچا ہے‘وہ سب انتہائی شفاف طریقے سے سیلاب زدگان تک پہنچایا جائے‘سیلاب زدگان تک سامان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کی آباد کاری سب سے بڑا مسئلہ ہے‘جن لوگوں کے روزگار تباہ ہو گئے ‘ان کے لیے روزگارہ کا انتظام کرنا ہوگا۔متاثرین کے لیے بہتر ملازمتوں کا بھی بندوبست کیا جائے تاکہ انھیں دوبارہ زندگی کی طرف لایا جا سکے۔