ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی اذیت ناک احساس وہ ہے کہ جس میں کوئی سوچنے لگے کہ کسی کو اس کا احساس تک نہیں کہ وہ کس حال میں زندہ ہے۔ یہی احساس اجتماعی صورت حال اختیار کر لے تو وہ قوم کا کرب کہلاتا ہے کہ ساری عوام ہی جینے کے ہاتھوں مر چلے‘ والی حالت میں آ جائے تو دلی تکلیف بڑھ جاتی ہے مگر ایک اطمینان کی بات تو کم از کم ہے کہ لوگوں کی بے حالی یا بدحالی کا احساس اور ادراک عمران خاں کو ہے لیکن انہوں نے ہار کبھی نہیں مانی اور اسی لئے وہ عوام کو بھی یہی حوصلہ دیتے رہتے ہیں کہ ’’گھبرانا نہیں‘‘ اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے ذرا بکروں کی بات ہو جائے۔ عیدالاضحی یعنی بقرہ عید کی آمد پر پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ بکرے خوش ہوئے ہیں کہ کوئی ان پر ہاتھ رکھتا۔اگر رکھ بھی دے تو قیمت سن کر ایسے ہاتھ اٹھاتا ہے جیسے کرنٹ لگا ہو۔ ویسے بھی لاک ڈائون یا سمارٹ لاک ڈائون کے ابھارے ہوئے ماحول میں بیوپاری ہمت ہی نہیں کر پائے کہ بکروں کو شہر میں لانے کی زحمت کریں کہ ڈرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ بکرے اکا دکا ہی نظر آتے ہیں۔ وہ پرانی رونق کہیں نہیں لوگ بھی ایس او پیز کے زیر اثر نہیں جاتے کہ محلے میں بکرا شکرا ذبح کریں۔ مختصراً کہ بکرے بڑے سکون اور آرام میں ہیں لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔آخر عید کے بعد چھری تلے آئے گی ویسے بھی بجلی‘ پٹرول‘ آٹا اور چینی کی گرانی کے نتیجہ میں عوام کو لٹکا دیا گیا ہے اس پر بھی حکومت کریڈٹ لے رہی ہے کہ اس نے عوام کا وہ حشر نہیں ہونے دیا جو کہ ہو سکتا تھا عوام کو تو ہوش ہی نہیں آ رہا کہ کچھ پوچھ سکیں۔ کوئی سراج الحق جیسا سر پھرا پوچھ لیتا ہے کہ اربوں ڈالرز کی امداد اور قرضوں کا کوئی حساب کتاب تو دیں۔ نقار خانے میں طوتی کی آواز۔ انشاء اللہ خاں انشاء نے کیا خوب کہا تھا: یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا وہی جو کسی نے کہا تھا کہ رہا کھٹکانہ لٹنے کا دعا دیتا ہوں رہزن کو ۔ ویسے یہ کورونا حکومت کے بہت کام آیا۔ پہلے اپوزیشن سمیت اپنے اپنے گھروں میں بند سنجی گلیوں میں مرزا یار جی بھر کر گھومتا رہا۔ ویسے ٹھیک ہے احتیاط بھی تو کرنا تھی۔ مگر افسوس احتیاط تو کسی نے نہیں کی اور اللہ نے ہی کرم کیا جس کا کریڈٹ حکومت لے رہی ہے پہلے ان کا کہنا تھا کہ ان کی توقعات کے مطابق لوگ مرے نہیں۔ خیر چھوڑیے ان باتوں کو عید کے حوالے سے انہوں نے کورونا کو بکروں کے حوالے سے ’’بکرونا ‘‘بنا کر پیش کیا کہ بکروں سے بکرونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ لوگوں نے زیادہ تر گائے میں حصہ ڈالا اس مرتبہ اونٹ بھی نظر نہیں آئے وگرنہ وہ تو حکومت کا نمائندہ جانور ہے کہ اس کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس مرتبہ گیس بلوں میں کورونا ٹیکس لگ رہا ہے اور بزدار صاحب نے وزیروں کو کچھ عملے کو تین تین ماہ کی اضافی تنخواہیں دی ہیں کہ وہ کورونا کیخلاف لڑے۔ اس پر کوئی کیا کہے۔ ڈاکٹرز بیچارے مرتے رہے۔ چلتے چلتے میں کوئی بامقصد بات بھی کر جائوں کہ کالم کو کوئی خیر کا جواز مل جائے۔ مجھے یاد آیا کہ ہماری فلاحی تنظیمیں عیدالاضحی کا خاص طور پر انتظار کرتی ہیں۔ انہیں کسی صورت میں نہیں بھولنا چاہیے۔خاص طور پر الخدمت اور غزالی ٹرسٹ۔ اخوت ‘فائونٹین ہائوس اور سندس سب ہی قابل ذکر ہیں۔ غزالی ٹرسٹ والوں نے خاص طور پر مجھے بتایا کہ لاک ڈائون کے حالات کی وجہ سے ان پر بہت بوجھ آن پڑا کہ اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا۔ ان کا نیٹ ورک بھی بہت ہے۔ وہ یتیم اور معذور بچوں کو بھی مفت تعلیم دیتے ہیں۔ سید عمران محمود جعفری بہت ہی فعال جوان ہیں الخدمت کی عبدالشکور بھی تو قابل تحسین ہیں۔ لاک ڈائون کے دنوں میں ان کا کام سب سے بڑھ کر تھا جو بھی ہے اس ضمن میں جماعت اسلامی کا کردار بہت تابناک ہے کہ وہ فی سبیل اللہ خدمت کرتے ہیں آسان نہیں ہوتا کہ قربانی کے حصے بنانا اور پھر حساب رکھنا۔ بہرحال کچھ نہ کچھ پھر بھی ہو رہا ہے۔ ابھی میرے محلے میں عبدالغفور صاحب کے بچوں نے بکرے کی دیکھ بھال شروع کی ہے تو وہ ایس او پیز کا خیال رکھ رہے ہیں بکرے کو ہاتھ لگ جائے تو وہ فوراً سینی ٹائزر استعمال کرتے ہیں ایک آدھ بکرے کو تو انہوں نے ماسک بھی پہنا دیا ہے۔ مگر آپ بکرے کی زبان بندی کیسے کر سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے بپاریوں کو بھی کہا گیا ہو گا کہ وہ بکروں کے درمیان فاصلہ رکھ کر چلیں گے اب اگر بھیڑیں ہوں تو وہ چلتی ہی بھیڑ چال ہیں۔ ایک احساس ہوتا ہے کہ یہی موقع تو ہوتا ہے کہ غریب بھی پیٹ بھر کر گوشت کھا لیتاہے اور کچھ سٹور بھی کر لیتا ہے مگر اس مرتبہ شاید وہ کافی حد تک محروم رہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت کے اقدام بہتر ہی لگتے ہیں کہ احتیاط پھر بھی بہتر ہے۔مثلاً ملک بھر میں 500غیر قانونی منڈیاں بند کر دی گئی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ان کا کیا بنے گا جو ہر عید پر چھریاں تیز کر کے بیٹھے ہوتے تھے اور ان میں سے اکثر وہ ہوتے تھے جو صرف عید پر قصاب بن جاتے تھے۔ پھر بھی ان کی عیدی تو بن جاتی تھی گھر پر قربانی کرنے کا تو اپنا ہی مزہ ہوتا ہے کہ عید پڑھنے کے بعد گھر کی قربانی کی کلیجی وغیرہ کے ساتھ روزہ کھولتے تھے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ زندگی سے پسپا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم جو اجتماعیت سے فرو ہونے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے تو قدرت نے بھی کہا کہ ایسے تو ایسے ہی سہی۔ ہم بھیڑ بکریوں سے بھی ڈرنے لگے کہ کورونا کے بعد کہیں یہ بکرونا وائرس ہی نہ لے آئیں۔مویشی منڈیوں میں سمارٹ سیمپلنگ کی جا رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 1000نمونے لئے جا رہے ہیں ڈاکٹرز اس رخ پر بھی سوچیں کہ کوئی کورونا سے متاثر بکروں کے قریب بھی نہ جائے۔یہ سوال ہے کہ کیا بکرے اور گائے وغیرہ انسان سے بھی تو متاثر ہو سکتے ہیں۔ کیا ایسے میں بکروں کے لئے بھی وینٹی لینٹر مہیا کئے جا سکتے ہیں یا نہیں کیا انہیں قرنطینہ میں لے جایا جا سکتا ہے۔ میری بات کو یقینا آپ مذاق سمجھ رہے ہوں گے۔ اگر اسمبلی میں ممبر اسمبلی ٹڈیوں کی بات کر سکتا ہے کہ ان کے کھانے سے کورونا کا علاج ہو سکتا ہے یا اس پر تحقیق ہو سکتی ہے تو بکروں کے بکرونا پر کیوں بات نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہیں کہا جا سکتا کہ انسانوں سے بکروں کی نسل کو بچایا جائے اور دور رکھا جائے۔ جو بھی ہے بکروں اور انسانوں میں ایک بات تو مشترک ہے کہ دونوں ’’میں میں‘‘ یعنی ممیاتے ہیں۔ یعنی ممناتے ہیں بلکہ ہم میں سے تو کچھ ہنہناتے بھی ہیں۔ آخر میں تازہ ترین تین اشعار: بارش مجھ سے کہنے لگی آئو مل کے روتے ہیں بخت کا اپنے مت پوچھو جاگتے میں بھی سوتے ہیں بھر جاتے ہیں رونے سے زخم جو گہرے ہوتے ہیں