پاکستان اور قطر کے درمیان 10برس کے لئے ایل این جی کا نیا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے مطابق پچھلے معاہدے کے مقابلہ میں قطر سے 31فیصد سستی ایل این جی حاصل کی جائے گی۔ پرانی قیمت پر ایل این جی لیتے تو پاکستان کو 316ملین ڈالر زیادہ ادا کرنا پڑتے‘نئے معاہدے سے10برس میں ملک کو تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔ دنیا بھر میں ہرگزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے، اس لحاظ سے تین چار برس قبل جو تجارتی معاہدے کئے گئے تھے، آج اگر ان معاہدوں کو ری شیڈول کریں تو وہ پہلے کی نسبت زیادہ مالیت میں ہونگے۔لیکن حکومت پاکستان نے قطر کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ ماضی کی نسبت کم پیسوں میں کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ماضی کے معاہدے زیادہ پیسوں میں ہوئے تھے۔جو قومی خزانے پر بوجھ تھے،ان معاہدوں میں ملک و قوم کے پیسے کی حفاظت نہیں کی گئی تھی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے معاہدہ کرنے والے احباب تب کوشش کرتے تو قومی رقم بچائی جا سکتی تھی۔ بادی النظر میں انہوں نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ یوں سابق حکومت نے ایل این جی کا 15برس کا معاہدہ کیا تھا اور 10برس کے لئے قیمت بھی طے کر دی گئی تھی جو 13.37فیصد برنیٹ پر قیمت مقرر کی گئی تھی۔ جبکہ موجودہ حکومت نے اس معیار کی ایل این جی کا معاہدہ اس ملک کے ساتھ 10برس کے لئے 10.2فیصد برنیٹ پر کیا ہے۔ پرانے معاہدے کے تحت 170ملین ڈالر کا لیٹر آف کریڈٹ حکومت پاکستان دے رہی تھی جبکہ نئے معاہدے کے تحت صرف 89ملین ڈالر کا لیٹرآف کریڈٹ دیا جائے گا۔ اس معاہدے میں دو بحری جہاز ماہانہ سے شروع ہونگے اور تین سال کے عرصہ میں بڑھ کر 2سے 4بحری جہازوں تک ہو جائے گا۔ نئے معاہدے میں پرانے معاہدے کے برعکس اور گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ اگر ہم رواں برس کے آخر میں موسم سرما میں فالتو ایل این جی حاصل کرنا چاہیں، تو بھی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اگر 31فیصد سستی ایل این جی درآمد کی جائے گی تو اس سے گیس کی اوسط قیمت بھی نیچے آئے گی۔ فوری طور پر 10سے 15فیصد فرق پڑے گا۔ ہمارے ہاں آئے روز لوگ ایل این جی قیمتیں بڑھنے پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ گاڑیوں اور رکشوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں،گھریلوں صارفین پریشان ہوتے ہیں ،اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ مہنگی ایل این جی درآمد کر کے سستی تو نہیں فروخت کر سکتی۔اب آئے روز کا احتجاج اور لڑائی جھگڑا بھی ختم ہو گا کیونکہ صارفین کو ماضی کی نسبت سستی ایل این جی ملنا شروع ہو جائے گی۔ اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب عثما ن بزدار نے لاہور میٹرو بس کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا تھا، جو ماضی کی نسبت کم پیسوں میں تھا، ماضی میں یہ معاہدہ 365روپے فی کلو میٹر کے حساب سے تھا جبکہ حکومت پنجاب کی کاوشوں سے یہ معاہدہ 304روپے ہوا ہے۔ آٹھ برس میں ہونے والی مہنگائی اور ڈالر ریٹ کے حساب سے اگر یہ معاہدہ کیا جاتا تو اس کی لاگت 532روپے ہوتی۔کیونکہ آٹھ برس میں مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے،جبکہ ڈالر کا ریٹ بھی کافی اوپر جا چکا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے یہ معاہدہ بھی آنکھیں بند کر کے ہی کیا تھا۔ اگر ماضی کے حکمران شفافیت اور میرٹ پر مبنی پالیسیاں اپناتے تو آج نہ صرف قومی خزانہ محفوظ ہوتا بلکہ عوام کا بھی ان پر اعتماد ہوتا لیکن انہوں نے شفافیت کو پس پشت ڈالے رکھا۔ جس بنا پر آج مہنگائی بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی بدولت آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ ہم مسائل کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ گزشتہ 35برس کی عوام کش پالیسیوں کی بدولت آج ہمارے ہاں غربت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ قرضوں کے پہاڑ کھڑے ہو چکے ہیں۔حکومت کو پرانے قرضے ادا کرنے کے لئے نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ جس بنا پر ہم بیرونی قرضوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے روپے کی قدر بھی کم ہو رہی ہے۔ حکمران جماعت نے جس طرح قومی خزانے کے بے دریغ استعمال اور فضول خرچی کو روک رکھا ہے اگر بیوروکریسی اور دوسرے سیاست دان بھی ایسا کریں تو ہم نہ صرف آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں بلکہ قرضوں کی دلدل سے بھی بآسانی باہر نکلا جا سکتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں سر ی لنکا کا دورہ کیا ہے جبکہ اس دورے پر محض 34ہزار ڈالر اخراجات آئے ہیں جبکہ میا ں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم جب سری لنکا کا دورہ کیا تھا تب اس دورے پر پونے تین لاکھ ڈالر خرچ آیا تھا حالانکہ تب ڈالر کا ریٹ بھی آج سے کافی کم تھا ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے قومی خزانے کی حفاظت نہیں کی،اگر ہم ایک باوقار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ملک و قوم کے اثاثوں کی حفاظت کرنا ہو گی ، ہر کسی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنا ہو گا تاکہ ہم ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کر سکیں۔