اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ 77 واں اجلاس شروع ہے۔ اَگرچہ دنیا کو اِس وقت ماحولیاتی آفات، معاشی عدم استحکام، بنیادی خوراک اور ایندھن کی قلت، ثقافتی جنگیں اور پاپولسٹ قوم پرستی، اور بین الاقوامی تنازعات جیسے ہنگامی عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے اور اِن چیلنجوں سے نمٹنا ہی اَقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم کے قیام کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے مگر یوکرائن اور تائیوان جیسے جیو پولیٹیکل اِیشوز، جن کے گرد عالمی طاقتوں کے مفادات براہِ راست آپس میں ٹکراتے ہیں، کی وجہ سے اَقوامِ متحدہ اپنے بنیادے اَہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہورہی ہے ۔ پاکستان میں مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور گلیشیئر پگھلنے سے آنے والے حالیہ سیلاب نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا ہے، تقریباً 1,600 افراد ہلاک اور 10 لاکھ سے زیادہ گھر تباہ ہوئے۔ ٹہرے ہوئے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حکومتِ پاکستان نے گزشتہ ماہ مجموعی نقصان کا تخمینہ 30 بلین ڈالر لگایا تھا، اس غیر متوقع نقصان سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ پاکستان دسمبر تک بین الاقوامی بانڈز میں1بلین ڈالر کی ادائیگی نہیں کر سکے گا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے موقع پر اَقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی پاکستان کے قرضوں کے بحران کو اپنے ابتدائی کلمات میں اٹھایا ہے اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کے لیے قرضوں میں کمی کے طریقہ کار پر غور کریں۔ گوتیریس نے کہا، ’’یہ (طریقہ کار) پاکستان میں زندگیوں اور معاش کو بچا سکتے تھے، جو نہ صرف سیلابی پانی میں ڈوب رہا ہے بلکہ قرضوں میں بھی ڈوب رہا ہے۔‘‘ جبکہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی جنرل اسمبلی سے اَپنے خطاب میں پاکستان میں ہونے والی تباہی کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم سب جانتے ہیں کہ ہم پہلے ہی آب و ہوا کے بحران میں رہ رہے ہیں۔ اِس پچھلے سال کے بعد کوئی بھی اس پر شک نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کا بیشتر حصہ ابھی بھی زیر آب ہے اور اِسے مدد کی ضرورت ہے جبکہ ہارن آف افریقہ کو بے مثال خشک سالی کا سامنا ہے"۔ اِس سے پہلے اَقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس ستمبر کے پہلے ہفتے میں اَپنے پاکستان کے دورہ کے موقع پر دنیا کی صورتحال "انتہائی غیر منصفانہ" قرار دیتے ہوئے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے 160 ملین ڈالر جمع کرنے کے لیے عالمی اپیل کا آغاز کرچکے ہیں۔ تاہم پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اَثرات پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری کے ٹھوس تعاون کی ضرورت ہے،جن میں مالی اِمداد اور واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول میں نرمی اور ادائیگیوں کا مؤخر ہونا شامل ہیں۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں اَمریکی صدر نے اِیک طرف موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اِس سال کے لیے پوری دنیا میں زندگی بچانے والی انسانی امداد اور خوراک کی حفاظت کے لیے 2.9 بلین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں وسیع تر معاشی اور سیاسی بحرانوں کو روکنے کے لیے کمزور ممالک کے قرضوں کے "شفاف طریقے سے مذاکرات" کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ ضروت اِس اَمر کی ہے کہ عملی اَقدامات کس حد تک اور کتنے مؤثر طریقے سے اِختیار کیے جاتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تواَقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر 1 فیصد سے بھی کم اخراج کے باوجود عالمی سطح پر 10 غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے جبکہ پاکستان کو بیرونی اور اندرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کا سامنا ہے اور حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی نے اِس کی معاشی صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ فنانشل ٹائمز میں جمعہ کو چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے ایک میمو تیار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کو اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں اور قرضوں کی تنظیم نو کو معطل کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے مالی سال میں پاکستان کا مجموعی دو طرفہ قرضہ 7 ارب ڈالر کے قریب ہے جو کہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 2 فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان اپنے قریبی اتحادی چین کا بھی تقریباً 30 بلین ڈالر کا مقروض ہے ،یہ رقم ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 30 فیصد بنتی ہے۔ اِسی تناظر میں نیویارک میں اِیک ٹی وی انٹرویو میں،پاکستان کے وزیرِاَعظم شہباز شریف نے پیرس کلب (قرض دینے والے اَمیر ملکوں کا ایک گروپ) اور دیگر ممالک سے پاکستان کے قرضوں کی واپسی پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے جو کچھ مانگا جا رہا ہے اور جو کچھ دستیاب ہے اِس کے درمیان ایک "بڑھتا ہوا فرق" ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ "پاکستان نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کی اِس سے بڑی اور تباہ کن مثال کبھی نہیں دیکھی۔ پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے"۔ پاکستان میں رونما ہونے والے حالیہ موسمی واقعات کے تناظر میں عالمی برادری باالخصوص ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کے بروقت تدارک کے لیے کاربن گیسوں کے اَخراج میں خاطرخواہ کمی جیسے عملی اَقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے فوری خطرات میں گِھرے ملکوں کو ہنگامی بنیادوں پر اِمداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور اِنسانی نسل ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہوجائے۔