قومی اسمبلی میں جمعہ کے روز حکومت اور اپوزیشن نے اس طرز عمل کا مظاہرہ کیا جو ان کے ووٹرز ان سے چاہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان الزام تراشی‘ گالم گلوچ اور اشتعال انگیز تقاریر کی بجائے مفاہمت کا ایک ماحول دکھائی دیا۔ حکومت نے اپوزیشن کی جانب سے سٹینڈنگ کمیٹیوں کو بھیجے بغیر اور بنا بحث 7نومبر کو منظور کئے تمام آرڈیننس منسوخ کر دیے جبکہ اپوزیشن نے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنمائوں نے کہا کہ حکومت ہماری بات سن لیتی تو حالات بہتر رہتے جبکہ حکومتی رکن اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ڈپٹی سپیکر کو متنازع نہیں بنانا چاہتی۔ ایک جمہوری سیاسی نظام میں حکومت اور اپوزیشن کا باہمی تعلق ریاستی مسائل کو طے کرنے کی ترجیحات اور طریقہ کار پر اختلاف رائے پر مبنی ہوتا ہے۔ اپوزیشن کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ حزب اقتدار کے اقدامات‘ فیصلوں اور قانون سازی پر سوال اٹھائے۔ سوالات اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ ایوان میں ایک صحت مند بحث سامنے آ سکے۔ حزب اقتدار پانچ برس بعد اپنی کارکردگی لے کرعوام کے سامنے جاتی ہے مگر اپوزیشن ہر روز اس کی کارکردگی کا عوام کا نمائندہ بن کر احتساب کرتی ہے۔ اپوزیشن کا کسی جمہوری نظام میں اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ حکومت کو ان فیصلوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے جس سے عام آدمی یا ریاست کے مفادات پرضرب پڑتی ہو۔ پاکستان کی طرح کثیر الجماعتی سیاسی نظام کے حامل ممالک میں اپوزیشن صرف ایک جماعت پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ دو‘ تین یا بسا اوقات درجن بھر جماعتیں مل کر اپوزیشن کا کردار نبھاتی ہیں۔ایسے معاشروں میں بہت سی جماعتیں،مذہبی یا لسانی گروہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ پاکستان ایسا ہی کثیر الجہتی معاشرے پر مشتمل ہے مگر یہاں کثیر الجماعتی نظام وسیع تر قومی مکالمے کا ڈھانچہ تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ پارلیمنٹ کسی معاشرے کے سیاسی اور ریاستی فیصلوں کا سب سے بڑا فورم ہوتا ہے۔ ہم نے اس فورم کی حرمت کو اراکین کے ہاتھوں بارہا پامال ہوتے دیکھا۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام کسی جمہوری سوچ اور اختلاف رائے کو پذیرائی نہیں بخشتا۔ اس ماحول میں کوئی پارٹی ورکر یا عہدیدار اپنی قیادت کو مشورہ تک دینے کی جرات نہیں کرتا مبادا اس کو عتاب کا نشانہ بننا پڑ جائے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں عموماً شعلے اگلنے والے مقررین ریاستی اور شہری مسائل پر چپ سادھے رکھتے ہیں کیونکہ ان کی معلومات اور صلاحیت کی پرواز اصل معاملات کا ادراک رکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کا جواز پیدا کرنے کے لئے ایسے اراکین جھگڑا کرتے ہیں یا نازیبا گفتگو کر کے مرکز توجہ بننے کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی خراب تر دکھائی دینے لگتی ہے جب حزب اقتدار کی جانب سے بھی اسی طرح کا درشت اور نازیبا لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے عشروں پر مبنی ریکارڈ میں ایک آدھ تقریرہی ایسی ہو گی جس کو ریاستی مفادات کے سلسلے میں پذیرائی حاصل ہوئی وگرنہ شرمناک جملوں کا انتخاب کر کے پوری ایک دستاویز تیار کی جا سکتی ہے۔ اسمبلی کے ہر اجلاس کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے گزشتہ ہفتے 11صدارتی آرڈی ننس اس لئے بغیر کسی بحث اور ضروری طریقہ کار کو اختیار کئے جاری کئے کہ اپوزیشن قانون سازی میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ اسمبلی کا ہر اجلاس بیمار اور زیر حراست اپوزیشن رہنمائوں کے متعلق غیر ضروری طوالت کی حامل تقریروںتک محدود رہا۔ حکومت نے انتظامی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے اس لئے ضروری قانون سازی کے ذریعے وہ اپنی عملداری آسان بناتی ہے۔ اپوزیشن کو اس طریقہ کار پر اعتراض ہوا تو اس نے پارلیمنٹ میں معاملہ طے کرنے کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ نے اس پر بڑا مناسب طرز عمل اختیار کرکے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو برقرار رکھا۔ اپوزیشن کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے بعض فیصلوں اور اسمبلی کی کارروائی چلانے کے طریقہ کار پر اعتراض تھا۔ یہی متحدہ اپوزیشن تھی جس نے پہلے چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور اب ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ اس طرح کے فیصلے سیاسی تلخیاں بڑھانے کے سواکوئی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اپوزیشن نے اسمبلی کے باہر مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کم دھرنا کی حمایت کی اور اسمبلی کے اندر سٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارروائی میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ حزب اختلاف ہر ایسا کام کرتی ہے جس سے حکومت زچ ہو لیکن اس بار تعجب خیز بات یہ ہے کہ حکومت بھی معاملات کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ چلانے کی بجائے تنازعات کو مزید بڑہاوا دیتی ہے۔ یہ طرز عمل درست نہیں۔حکومت اور اپوزیشن کو اس امرکا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیںاور ان کا پہلا کام ریاست اورعام شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ اپوزیشن نے گزشتہ 14ماہ کے دوران شاید پہلی بار قومی اسمبلی کے اجلاس کو مفاہمانہ انداز میں چلانے کے لئے حزب اقتدار کا احترام کیا ہے‘ اسی طرح حزب اقتدار نے بھی اپوزیشن کے کردار کو تسلیم کر کے قومی اسمبلی کے ماحول کو کشیدگی سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے شہری توقع کرتے ہیں کہ یہ مفاہمانہ ماحول تادیر برقرار رہے گا اور حزب اقتدار و حزب اختلاف عام آدمی کے دکھ کم کرنے کے لئے اپنی توانائی استعمال کریں گی۔