منگل کے روز قومی اسمبلی میں حکومتی و اپوزیشن اراکین نے جس غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ اطوار کا مظاہرہ کیا اس سے پارلیمانی جمہوریت کے سندر سپنے دیکھنے والوں کی آنکھ میں گویا کانچ چبھ گیا ہو۔ ہنگامہ سوموار کو اس وقت شروع ہوا جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف وفاقی بجٹ پر اپنی تقریر کرنے لگے۔ سپیکر کی بار بار درخواست کے باوجود جب شور شرابے میں کمی نہ آئی تو انہوں نے اجلاس اگلے دن تک ملتوی کر دیا۔ منگل کے روز شہباز شریف اپنی تقریر مکمل کرنے کے لئے آئے تو ایک بار پھر شور و غوغا شروع ہو گیا۔ اس دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ جلد گالم گلوچ میں بدل گیا۔ ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک جا پہنچے۔ بجٹ کی کتابیں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے اراکین بطور ہتھیار ایک دوسرے پر پھینکتے رہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اراکین کو اختلاف رائے کے اظہار کی تربیت دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ سیاسی اختلاف فوری ذاتی جھگڑے اور پھر مارپیٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ قومی تاریخ میں ایسے واقعات اگرچہ بڑے کم رہے ہیں جب پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی سے کوئی بحران پیدا ہوا ہو لیکن بہرحال ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں اس لئے ملکی سلامتی اور جمہوریت کے خیر خواہ ان کو نظر انداز نہیں کرتے۔1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ اس دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئے‘ کسی نے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو زدو کوب کیا۔ اس تشدد سے شاہد علی کی دو روز بعد موت ہو گئی۔ سیاسی مورخین سقوط مشرقی پاکستان کی جڑوں تک پہنچنے کے دوران اس واقعے کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی وفاقی جماعت رہنے والی پیپلز پارٹی کے عروج کا دور بھی کم ہنگامہ خیز نہ تھا۔1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے۔ وہ آئین میں چوتھی ترمیم کرانا چاہتے تھے۔ اپوزیشن کی حمایت کے بنا یہ ممکن نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے فیڈرل سکیورٹی فورس کے ذریعے قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کو ایوان سے نکال دیا ۔اسمبلی کے دروازے بند کر کے 23منٹ میں ترمیمی بل منظور کرا لیا۔ حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے طرز عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی نے مکمل تحقیقات تک نازیبا زبان استعمال کرنے والے اراکین کو اسمبلی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی روکنے کے لئے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کیا‘ جھگڑے میں زیادہ افراد کے شامل ہونے پر سارجنٹس کی اضافی نفری بھی طلب کر لی گئی جنہوں نے سپیکر‘ حکومتی اراکین اور اپوزیشن اراکین کے گرد حصار بنا کر جھگڑے کو جسمانی طاقت کا مظاہرہ بننے سے روکا۔ سپیکر اگر حکم دیں تو سارجنٹ ایٹ آرمز کسی بھی رکن اسمبلی کو زبردستی ایوان سے نکال سکتے ہیں۔ رویت ہے کہ سپیکر ہر اجلاس کے موقع پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ مل کر ایجنڈے پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ یقینا سوموار والے ناخوشگوار واقعے کے بعد سپیکر نے حکومت اور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی رہنمائوں سے بات کی ہو گی‘ اس کے باوجود منگل کو جھگڑا ہو جانا کئی سوالات کو ابھارتا ہے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران ایوان کا ماحول موزوں رکھنا حکومت کا کام ہوتا ہے‘ اپوزیشن چاہے دو اراکین پر مشتمل ہو وہ حکومت پر تنقید کر کے زندہ رہتی ہے۔1988ء کے بعد پاکستان میں جمہوری ادارے موجود رہے ہیں۔ اسمبلیاں اپنا کام کرتی رہی ہیں۔ اسمبلیوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید اختلاف بھی دیکھنے کو ملا لیکن اس اختلاف کا اسلوب گالم گلوچ کے ڈھب میں نہیں ڈھلا۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ جب کبھی کسی رکن پارلیمنٹ نے جوش خطابت میں کسی مخالف کی تذلیل یا توہین کی اسے عوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف نے 2014ء کے دوران جب دھرنا دیا تو مسلم لیگ ن کے بعض اراکین کی تقاریر میں توہین آمیز مواد شامل تھا لیکن پیپلز پارٹی نے بطور اپوزیشن کافی متوازی نکتہ نظر پیش کیا۔حالیہ واقعہ میں دیکھا گیا ہے کہ حکومتی اراکین نے اپنی ذمہ داری کماحقہ پوری نہیں کی۔ وہ آسانی کے ساتھ اشتعال میں آ گئے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک اچھا بجٹ پیش کرنے پر حکومت کی کارکردگی کو جس طرح قابل ستائش قرار دیا جا رہا تھا وہ تعریفی عمل شدید تنقید اور ناگواری کی شکل اختیار کر گیا۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کا کچھ نہیں بگڑا، نقصان حکومت کا ہوا۔ ایسا نہیں کہ اپوزیشن پوری صورت حال سے بری الذمہ ہے۔ مسلم لیگ ن کے بعض اراکین مسلسل پارلیمنٹ کے اندر اور باہر گالیاں دے رہے ہیں۔ سپیکر کئی بار ان کی تقاریر کو حذف کرنے کی رولنگ دے چکے ہیں۔ یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کے پاس حکومت کی حالیہ معاشی کامیابیوں پر بات کرنے کے لئے مواد موجود نہیں اس لئے وہ جھگڑے کی فضا بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ ممکن ہے اپوزیشن جس طرح وزیر اعظم عمران خان کو ایوان میں آ کر بات کرنے سے روکتی رہی ہے حالیہ واقعہ اسی کا ردعمل ہو لیکن جمہوری عمل کو اگر منفی ردعمل کے ایک کڑی دار سلسلے کے حوالے کر دیا گیا تو ان اداروں کی بقا مشکل ہو جائے گی جہاں قومی معاملات سلجھائے جاتے ہیں۔