امریکی صدر کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ کے یوم آزادی یعنی 4جولائی سے پہلے افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا مکمل کر لے۔افغانستان کے اندرونی دھڑے ابھی تک کوئی نتیجہ خیز معاہدہ کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر کسی معاہدے کے بغیر امریکی افواج کا انخلا ہوا تو افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا اور نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے، افغانستان میں موجودہ صورتحال پاکستان کے لئے باعث تشویش ہے ۔دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی CPECکو اپنے لئے خطرناک سمجھتے ہیں اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں ،اس سے پہلے دیگر مسلم ممالک کو جس طرح امریکہ نے سیاسی اور عسکری لحاظ سے ناکام بنایا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ یمن‘ مصر اور شام کا حال ہمارے سامنے ہے۔ سعودی عرب کی حکومت پہلے ہی امریکہ کے سامنے سرنگوں ہے اور اسی کے اشاروں پر چلتی ہے۔ خوش قسمتی سے افغانستان میں امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور اب اربوں ڈالر ضائع کرنے کے بعد اس نے پس قدمی میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ پاکستان کی مضبوط فوجی قوت اور ایٹمی طاقت ہونا فی الحال پاکستان کو کسی بھی طاقت کے لئے ترنوالہ بننے سے بچائے ہوئے ہے۔بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کی سٹریٹجی اب یہ ہے کہ پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات اس آپشن کے لئے نہایت مناسب ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتیں کسی ایک بات پر بھی متفق نہیں ہیں، بعض سیاسی جماعتیں اس قدر فرسٹریشن کا شکار ہیں کہ وہ نظام کی تباہی اور بربادی میں ہی اپنی بقا سمجھتی ہیں۔ ان کی آنے والی نسلیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ان کی حکمرانی نہیں تو خدانخواستہ پاکستان کی بھی ضرورت نہیں، وہ واپس حکمرانی میں آنے کے لئے بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بننے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔ پاکستان سے باہربیٹھ کر وہ پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں اور لوٹی ہوئی دولت کو دوبارہ حکومت میں آنے کے لئے کھل کر استعمال کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ Rent a crowdکے تمام اسباب مہیا کرنے کے باوجود پی ڈی ایم کو پاکستانی عوام میں کوئی پذیرائی نہ مل سکی۔پی ڈی ایم کو گیارہ جماعتوں کا اتحاد کہا گیا لیکن اصل میں تو تین چار جماعتیں ہی ان میں قابل ذکر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی کے نکل جانے کے بعد تو یہ صرف نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کا اتحاد ہے ،پی ایم ایل(ن ) اور جے یو آئی کے دانشور لوگ بھی فکر مند ہیں کہ اگر پورے نظام ہی کو گرا دیا گیا تو پاکستان کا کیا بنے گا۔انہی محب وطن لوگوں کی وجہ سے پنجاب اور قومی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا آپشن استعمال نہیں کیا جا رہا ورنہ عمران خان کی حکومت تو پہلے ہی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ پاکستان کا عام آدمی محب وطن ہے اور پاکستان کی بقا کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہے۔ پی ڈی ایم عوامی پذیرائی نہ ملنے کے بعد اپنے زرخرید افرادکے ذریعے یہ تاثر پھیلا رہی ہے کہ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان میں صحافت ضرورت سے زیادہ آزاد ہے۔جس آزادی سے پاکستان میں حکومت، فوج اور عدلیہ پہ تنقید کی جاتی ہے دنیا کے کسی اور ملک میں ممکن نہیں۔ہمارے بعض صحافی آئین کے ان حصوں کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیںجو فوج اور عدلیہ کو اس بے جا تنقید سے استثنیٰ دیتے ہیں۔ اس استثنا کے باوجود فوج اور عدلیہ نے مثبت تنقید کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے لیکن ماں بہن کی گالیاں دینے والے لوگ کیسے قانون کے آہنی ہاتھوں سے بچ سکتے ہیں۔ یحییٰ خان کبھی بھی اس فوج کے ہیرو نہیں رہے۔ فوج میں ان کا ذکر نفرت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اقلیم اختر عرف جنرل رانی تیس چالیس سال پہلے وفات پا گئیں۔ اگر ان کی کوئی اولاد ہے تو وہ بھی ساٹھ ستر کے پیٹے میں ہو گی۔ان کا ذکر کس خوشی میں کیا جا رہا ہے اورکس کو خوش کرنا مقصود ہے۔ پاکستان کے صحافتی حلقوں نے عمومی طور پر اس ہرزہ سرائی کی مذمت کی ہے۔ صرف گنتی کے چند لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی وجہ سارے پاکستان کو معلوم ہے کہ وہ کس کا حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ شعلہ نوائی والے صاحب کو تو خود ان کے ادارے نے علیحدہ کر دیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ پاکستان کا میڈیا پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ چند کالی بھیڑوں کے علاوہ پاکستان کا میڈیا پاکستان اور اسلام کے خلاف کسی بھی مہم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہوتا ہے۔ پاکستان کا سوشل میڈیا ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود سوشل میڈیا عوام کی آواز بن گیا ہے۔پاکستان سوشل میڈیا کے ایک محب وطن نوجوان نے جس طرح ایک صاحب کے بارے میں ثبوت مہیا کئے ہیں کہ ان کے بھارت کے On Lineاخبارکے ساتھ کیا تعلقات ہیں اور بھارتی صحافی شیکھر گپتا کس طرح انہیں سہولیات مہیا کرتا ہے اس بھارتی اخبار کا طرہ امتیازیہ ہے کہ یہ اخبار پاکستان‘ پاکستانی افواج اور وزیر اعظم عمران کے خلاف صف آرا ہے۔۔ پی ٹی ایم اس اخبار کی پسندیدہ پاکستانی جماعت ہے۔ اس اخبارمیں دیگر پاکستانی صحافی جو اینٹی پاکستان مضامین لکھتے ہیں ان میں ریحام خان‘ طحٰہ صدیقی‘ ماروی سرمد‘ نائلہ عنایت اور محمد تقی شامل ہیں۔ گل بخاری اور حسین حقانی بھی اس اخبار میں پاکستان کے بارے میں لکھتے ہیں۔بھارتی حکومت اس سے یہ فائدہ اٹھاتی ہے کہ وہ دعویٰ کرتی ہے کہ خود پاکستانی فوج‘ آئی ایس آئی اور عمران حکومت کے خلاف یہ خیالات رکھتے ہیں۔ پاکستان سوشل میڈیا کے ایک اور حق گو اور قابل بھروسہ صحافی نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے فوری بعد نواز شریف کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنانے کا معاملہ اٹھایا ہے اور جنرل مشرف کی مارشل لاء کی تعریف و توصیف کی چند کالموں میں نشاندہی کی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب کوئی سیاستدان وفات پا جائے توکچھ صحافی فوراً یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے مرنے سے پہلے ان کو نہایت حساس معلومات دی تھیں۔ اب ریاست کا یہ فرض ہے کہ ملک میں آئین پر من و عن عمل کروایا جائے۔ اپوزیشن کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کئے جائیں۔ پاکستان دشمن عناصر کو اگر کھلی چھٹی دی گئی تو بہت سے اور لوگ ان کی پیروی کریں گے۔ قومی یکجہتی پیدا کرنا حکومت کا کام ہے اپوزیشن کا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حکومت احتساب کا راگ الاپتی رہے اور بیرونی طاقتیں پاکستان ہی کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کر دیں۔قومی یکجہتی کی ضرورت جس قدر اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔