کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زیر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے کوئی کیا کر سکتا ہے کوئی کب جانتا ہے کہ منظر کب بدل جائے مشیت ایزدی کے سامنے سب بے بس و لاچار ہیں۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے یہ مٹی کا پتلا جو اس کے امر سے بھاگتا پھرتا ہے اور ہوائوں میں اڑتے نظر آتا ہے بس مقدر اور لکھے ہوئے کا پابند ہے یہ حقیقت اور امر اپنے جگہ سچ ہے مگر دل ہی تو ہے نہ سنگ وحشت درد سے بھر نہ آئے۔ کیوں کچھ آنسو دل کا غبار تو ہلکا کرتے ہیں اٹھائیسویں رمضان کی دوپہر میرے وطن پر قیامت صغریٰ ہی تو تھی کہ پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں گر کر تباہ ہو گیا اور عملے سمیت 99نفوس زندگی کی بازی ہار گئے خبر آتے ہی پورا ملک غم میں ڈوب گیا۔ زندگی کتنی غیر یقینی ہے اس راز سے سب باخبر ہیں مگر زندگی تو زندگی ہے موت تک کہاں سانس لیتی ہے، ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا ۔پورے رنگوں کے ساتھ بھری ہوئی خوش نما زندگی قدرت کا عطیہ ہے۔ اسے کہاں چین ہے یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے مگر یہ اڑتا ہوا غبار آخر کو نیچے آن بیٹھتا ہے۔ بس یہی کچھ ہے کہ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے بس رہے نام اللہ کا۔ لاہور سے اڑ کر کراچی جانے والے 99مسافر کیسے کیسے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہونگے۔عید قریب تھی منزل تو اس سے بھی زیادہ قریب تھی کہ ایک منٹ کے بعد جہاز کو لینڈ کر جانا تھا۔ مسافر اترنے کی تیاریاں کر رہے ہونگے مگر وہی جو اجل کی تعریف کی گئی کہ پتہ نہیں کسی نے دوسری مرتبہ آنکھ جھپکنی بھی ہے کہ نہیں۔ بس وقت پورا ہو جائے تو اللہ کا فرمان سامنے آ جاتا ہے کہ کوئی ذی روح طے شدہ وقت سے آگاہ نہ ایک سانس زیادہ لے سکتا ہے اور نہ کم۔ دکھ سے بھرے ہوئے دلوں کے ساتھ ہم دست دعا اٹھا کر ان کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔ یہ پڑھ کر آنکھیں نم تو ہو جاتی ہیں کہ جہاز کے پائلٹ نے سجاد گل نے کہا تھا کہ لیٹ ہو جائوں تو بچوں کو عیدی دے دینا۔ وہ روزے کی حالت میں تھا جاتے وقت تلاوت کی اپنے والد سے دعا کرنے کو کہا یقینا سب شہید ہونے والے ہمیں افسردہ تو کر گئے۔ اہل وطن کی عید جیسے ماند پڑ گئی ہے جہاز جن گھروں پر گرا وہاں بھی لوگ زخمی ہوئے اور انہیں بھی کب علم تھا کہ ان کے سروں پر سانحہ رونما ہونے والا ہے۔ بہرحال دل افسردہ ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم حالت امتحان میں ہیں۔ ہمارا سوچنے کا وقت ہے اور اپنے آپ پر غور کرنے کا لمحہ ہے۔ پہلے ہی ہماری حالت دگرگوں ہے۔ پہلے ڈیڑھ دو ماہ کا لاک ڈائون، لوگوں کو خاص طور پر غریبوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کاروبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں مگر اس عالم میں کرپٹ اور بددیانت لوگوں کا لوٹ مار کرنا اور وبا کو بھی اپنا کاروبار بنانا کس قدر شرمناک ہے ۔یہ اپنی جگہ درست کہ اللہ سے ڈرنے والوں نے اور الخدمت جیسی تنظیموں نے مجبور اور ضرورت مندوں تک راشن پہنچایا مگر حکومتوں کی امداد پر سوال بہر طور اٹھائے گئے اور اٹھائے جا رہے ہیں۔ پھر بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی جس میں فوج کے جوان شہید ہوئے ۔یہ سب سانحات اور حادثات احساس پر وارد تو ہوتے ہیں مگر ان معاملات کے درمیان جب کبھی حکومتی بنچوں سے جب کبھی محبوب خدا ﷺ کے مجرموں اور ختم نبوت کے منکروں کی طرف سے کوئی سازش لانچ ہوتی ہے تو شدید دکھ ہوتا ہے۔ کیا اس سے بے برکتی نہیں آتی کیا اس سے ہمارے دل زخمی نہیں ہوتے کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی آتا ہے ہمیں اور رلا جاتا ہے۔ سب کچھ برداشت ہو سکتا ہے کہ اس کا تعلق ہماری برداشت سے ہے مگر جہاں تک تعلق ہمارے عقیدہ اور متاع دین کا ہے تو اسے کسی صورت نہیں لٹایا جا سکتا ہے باقی کمیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ کہ ان کی معافی ممکن ہے ،مگر ایمان سے غفلت ناقابل معافی ہے۔ قدرت ہمیں ہوش میں لانے کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے اللہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے اعمال پر غور کر لیں۔اس سے لو لگائیں اس کی اتاری ہوئی کتاب کو سمجھیں اس کا پیغام پڑھیں دنیا اور دنیاداری کب تک ایویں میری میری کردا ایں کیوں کفر دی بیڑی چڑھدا ایں۔دو گز دا ٹوٹا کفن ترا ہتھ آیا آیا نہ آیا اللہ نے تو زمانے کی قسم کھا کر کہہ دیا کہ انسان خسارے میں ہے یہ عجلت پسند ہے پھر کہا کہ اس کو کثرت نے ہلاکت میں ڈال دیا اور اس نے آخر قبریں جا دیکھیں بس وہی حکمت و دانش والا ہے، جس نے یہ راز پا لیا اور عاقبت کی تیاری کر لی۔ اپنے لمحات کو ذکر و فکر سے قیمتی بنا لیا۔ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنا ہے۔ دور کیوں جائیں آپ حالیہ صورت حال دیکھ سکتے ہیں کہ ارطغرل ڈرامہ پر کتنے لوگوں نے چیخ و پکار کی کہ اس ڈرامہ کو نہیں چلنا چاہیے، حالانکہ اس میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ اسلامی عادات و اطوار کی بازگشت ہے اور عظمت رفتہ کی ایک یاد ہے بہانہ دیکھیے کہ اس کے ہیرو مقامی نہیں ہیں کون نہیں جانتا کہ ہمارے ڈراموں میں کیا کیا گند نہیں دکھایا جاتا اور نوجوان نسل کو بے راہ نہیں کیا جاتا۔ رشتوں کا تقدس تک تباہ کیا جاتا ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ حادثات و سانحات قدرت کی طرف سے قوموں پر آتے ہیں اور یہ چیزیں کسی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہے کیا یہ ہمیں اللہ کے قریب کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں تو پھر یہ اچھی بات ہے عثمان بزدار نے اچھی بات کہی کہ سرکاری افطاریاں اور عید پارٹیاں نہیں ہونگی حادثہ کے غم میں عید سادگی سے منائی جائے گی ہمیں چاہیے کہہ ہم خیرات و صدقات کریں اب دیکھیے ناں کہ ہماری فصلوں پر ٹڈی دل بھی حملہ آور ہے۔ کہا بھی جاتا ہے کہ برا وقت اکیلا نہیں آتا تو قبلہ تو یہ ثابت ہے ہم دیکھتے نہیں کہ ہماری حالت کہاں تک پتلی ہو گئی ہے کہ خان کی ٹیم کہ جسے قدرت نے موقع دیا یا انہیں موقع مل گیا کہ وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مختلف ثابت ہوں مگر ان کے پیرا شوٹر نے وہی کام کیا اور آٹا اور چینی سے اربوں روپے بنائے گئے نیک نامی پر لوٹ مار کو ترجیح دی بس انہیں رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ کوئی نیک نامی اور اللہ کو خوش کرنے کے لئے کاروبار کرے۔ کرپشن کرنے والوں کے پاس حالانکہ کچھ کمی نہیں، کمی ہے تو اس سمجھ کی کہ عزت و احترام خریدا نہیں جا سکتا۔ کتنی بے رنگ ہے اے دوست مری شام زوال نہ وہ جذبہ رہا باقی نہ نظارہ کوئی