بھارتی فوج نے ایک بار پھر جنگ بندی معاہدے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر آباد گائوں پر گولہ باری کر کے 11افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ واقعہ کھوئی رتہ سیکٹر پر پیش آیا جہاں جگجوٹ گائوں میں شادی کی تقریب جاری تھی کہ بھارتی فوج نے راکٹ برسا دیے۔آئی ایس پی آر کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔ نہتی آبادی پر گولہ باری سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی افواج پیشہ وارانہ ڈسپلن اور صفات سے محروم ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول پر پرامن آبادی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہر دوسرے روز ہوتے ہیں۔متعدد بار گھروں مین کام کرتی خواتین ،بچے اور مویشی بھارتی گولہ باری کا ہدف بنے ۔مکانات کو نقصان پہنچنا تو معمول کا واقعہ بن کر رہ گیا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں پچھلے ہفتے بھارتی فوج نے ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا جوان اور چار شہری شہید ہو گئے تھے،17افراد زخمی بتائے گئے۔ رواں برس بھارت کی طرف سے ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہے۔ ناگزیر حالات میں پاکستان اس طرح کے حملوں کا بھر پور جواب دیتا ہے لیکن اس سلسلے میں یہ اطمینان کیا جاتا ہے کہ فائرنگ صرف فوجی اہداف پر ہو۔ سویلین املاک اور شہری اس کی زد میں نہ آئیں۔ دوسری طرف بھارتی افواج ہیں جو فوجی جوانوں سے پنجہ آزمائی کی بجائے نہتے شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین سال کے اعداد و شمار کی پڑتال بتاتی ہے کہ بھارتی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد پاکستان کی طرف سے ہونے والی جوابی کارروائی کی زد میں آنے والے شہریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ریکارڈ گواہ ہے کہ پاکستان جنگ بندی معاہدے کا احترام کرتا ہے اور عالمی ضابطوں کے مطابق سرحدوں پر آباد بھارتی شہری آبادی کو نقصان پہنچانے کے حق میں نہیں۔ بھارت کی جانب سے سرحدوں پر کشیدگی پیدا کرنا ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔5اگست 2019کو بھارت کی انتہا پسند حکومت نے مہاراجہ کشمیر اور پنڈت نہرو کے درمیان ہوئے معاہدے کو گویا غیر آئینی طور پر منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ سوا سال ہو چکا ہے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو جیسی صورت حال ہے۔ ذرائع ابلاغ منقطع ہیں‘ اگر کہیں کام کر رہے ہیں تو بھارتی سکیورٹی فورسز کی کڑی نگرانی ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کے لئے غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ غیر ریاستی باشندے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ ریاست کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لئے بھارت کے مختلف علاقوں سے شدت پسند ہندوئوں کو لا کر مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے۔ بھارت انتظامی اقدامات کے ذریعے ہی کشمیر پر اپنا تسلط مضبوط نہیں بنا رہا بلکہ بچوں کو برین واش سے گزارا جا رہا ہے‘ خواتین کی عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور آزادی پسند نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس پر اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمشن‘ یورپی یونین کے کمشن برائے انسانی حقوق‘ جینوسائیڈ واچ‘ آزاد گروپوں اور غیر جانبدار ذرائع ابلاغ نے کھل کر تنقید کی ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر پر اس کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف کشمیر کے حوالے سے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ بابری مسجد کی شہادت‘ گجرات میں مسلم کش فسادات‘ شہریت کا متنازع قانون‘ دہلی فسادات اور آئے روز مسلمان شہریوں کی انتہا پسندوں کے ہاتھوں راہ چلتے موت نے ثابت کیا ہے کہ بھارت میں جمہوریت‘ انسانی آزادیاں اور حقوق وغیرہ ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں محفوظ نہیں۔ چند روز پہلے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف اور عسکری حکام نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت فراہم کئے۔ ان شواہد کے جواب میں بھارت کو اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہیے تھی لیکن اس نے برعکس حکمت عملی اختیار کی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جبر کا شکنجہ مزید سخت کر دیا۔ مسلمانوں کے خلاف سرکاری سطح پر تعصب اور نفرت کو ہوا دی جا رہی ہے اور ایسا بیانیہ گھڑا جا رہا ہے جس میں انسانیت‘ آئین‘ قانون اور عالمی ضابطوں کی پابندی کی بات کرنے والے کے لئے بھارت کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے۔ اس پر مزید افتاد یہ کہ کورونا نے ترقی کرتی بھارتی معیشت کو نیچے کی طرف لڑھکا دیا ہے۔7فیصد شرح نمو والا ملک اب 3.5فیصد کے قریب آ گیا ہے۔ بے روزگاری‘ صنعتوں کی بندش اور سرمایہ کاری میں کمی سے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تنقید کو دوسرے رخ پر موڑنے کے لئے آسان طریقہ یہی ہے کہ پاکستان دشمنی کا نعرہ بلند کیا جائے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اس قدر بڑھا دی جائے کہ حسد‘ انتقام اور تکبر کی آگ میں جلتے بھارت کے لوگ مودی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بجائے کشیدگی کی طرف توجہ مرکز کئے رکھیں۔