اکتوبر1994ء کی ایک دوپہر، بھارتی وزارت داخلہ کے ہیڈکوارٹر نارتھ بلاک میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ وزارت داخلہ کی بیٹ کورکرنے والے دیگر صحافیوں کے ساتھ میں بھی نارتھ بلاک کے کوریڈور میں خبر یں تلاش کرنے کیلئے آپہنچا تھا۔ تقریباً20سے زائد ڈویژنوںپر مشتمل یہ وزارت دہلی میں کام کرنے والے صحافیوں کیلئے خبروں کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مگر جس طرح وزارت خارجہ میں ایک اعلیٰ عہدیدار باضابطہ طور پر ترجمان کے بطور متعین ہوتا ہے اور سبھی آن ریکارڈ یا آف ریکارڈ بریفنگز کیا جاتا ہے، وزارت داخلہ میں اس طرح کا کوئی میکانز م موجود نہیں ہے۔ رپورٹرز چار بجے کے بعد نارتھ بلاک کے کوریڈور میں جمع ہونا شروع ہوتے ہیں ۔ کسی نہ کسی ڈویژن کا سربراہ جو ایڈیشنل سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری ہوتا ہے، اکثر آف ریکارڈ گفتگو کرکے میڈیا کو فیڈ کرتا ہے۔ کبھی کبھی سیکرٹری داخلہ خود بھی اپنے کمرے میں بلا کر چائے بسکٹ سے تواضع کرکے بریفنگ دے دیتا ہے۔ یہ سلسلہ بس ایل کے ایڈوانی اور بعد میں پی چدمبرم کی وزارت کے دوران موقوف ہوگیا تھا، کیونکہ وہ خود ہی میڈیا کو بریف کرنا پسند کرتے تھے۔ خیر 31اکتوبر کی دوپہر جب ہم کسی جوائنٹ سیکرٹری کے کمرے میں بریفنگ لے رہے تھے، کہ منسٹری میں اچانک افراتفری مچ گئی۔ یہ افسر بھی بریفنگ چھوڑکر سیکرٹری داخلہ اور بعد میں وزیر داخلہ ایس بی چوان کے کمرے میں پہنچ گیا۔ چند لمحوں میںکوریڈور میں دیکھا کہ اس وقت کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ وی جی ویدیا اور ریسرچ اینڈ اینالیسز یعنی راء کے ڈائریکٹر اے ایس سیالی بھی لائو لشکر کے ساتھ وزیر داخلہ کے کمرے کی طرف روا ں ہیں۔ کسی طرح پتہ چلا کہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے پاس پہاڑ گنج کے ہوٹلوں میں مقیم چند غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ ہوٹل مالکان سے معلوم ہوا کہ ایک امریکی اور چندبرطانوی سیاح پچھلے چار روز سے غائب ہیں۔ قسمت نے بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر کچھ ایسی یاوری کی کہ ، جب وزار ت داخلہ میں یہ ہنگامی میٹنگ جاری تھی کہ لکھنئوسے اتر پردیش پولیس سربراہ نے اطلاع دی کہ دہلی سے متصل غازی آباد ضلع کی پولیس ، جب ایک چور کو مال مسروقہ برآمد کروانے کیلئے مسوری گائوں لے جارہی تھی، تو چور پولیس پارٹی کو جل دیکر بھاگ گیا۔ جب وہ اسکا پیچھا کررہے تھے تو وہ ایک مکان کی دیوار پھلانگ گیا۔ اسکا پیچھا کرتے ہوئے جب پولیس اس مکان میں گھس گئی تو وہاں ایک امریکی سیاح رسیوں سے بندھا ہوا ملا ہے۔ اغوا کار کو پولیس نے مقابلہ کے بعد پکڑا ہے، جو خود بھی غیر ملکی لگتا ہے۔ یہ اغواکار پاکستانی نژاد برطانوی شہری احمد عمر سعید شیخ بتایا گیا، جس کو ابھی حال ہی میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے الزام سے بری کیا گیا ہے، مگر اغوا کا ملزم گردان کر سات سال کی سزا سنائی ہے، جو وہ پہلے ہی پوری کرچکا ہے۔ اس کہانی کے تانے بانے جوڑ کر اور پھر عمر سعید کی انٹروگیشن رپورٹ سے پتہ چلا کہ اس نے تین برطانوی اور ایک امریکی سیاح کو بہلا پھسلا کر دہلی کے نواح میں قید کر لیا تھا۔ 31اکتوبر کی دوپہر اس نے دہلی آکر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے دفتر کے استقبالیہ پر ایک لفافہ ڈیلیور کیا ، جس میں ان سیاحوں کے پاسپورٹ وغیرہ کی تفصیلات اور جموں کے کورٹ بلوال جیل میں بند حرکت الانصار سے وابستہ مولانا مسعود اظہر، سجاد افغانی اور نصراللہ لنگڑیال کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بی بی سی نے خبر نشر کرنے سے قبل تصدیق کیلئے یہ لفافہ وزارت خارجہ کے ترجمان کے سپرد کردیا، جس نے اس کو فوراً ہی وزارت داخلہ میںعین اسی وقت بھیجا ، جب رپورٹرز وہاں خبروں کی تلاش میں گشت کر رہے تھے۔ یہ پیکٹ ڈیلیور کرنے کے بعد جب عمر سعید غازی آباد کے مسور ی گائوں واپس پہنچا تو مقامی پولیس پوسٹ کا انچارج ستیہ دیو یادو چند سپاہیوں کے ساتھ مال مسروقہ برآمد کرنے کیلئے ایک چور کو گائوں میں لے آرہے تھے۔ عمر سعید کے مطابق اس کو لگا کہ پولیس اس کو گرفتار کرنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ پولیس کے بیان کے مطابق عمر سعید نے سپاہیوں کو دیکھ کر بھاگنا شروع کیا۔ وہ پہلے اس کو چور کا ساتھی سمجھ کر آوازدے رہے تھے۔ مگر اس نے جواب میں فائرنگ کی۔ جواب میں پولیس فائرنگ سے وہ زخمی ہوگیا اور مکان کے اندر پولیس نے امریکی سیاح جوزف نوس کو برآمد کیا۔ اگلے روز جب سیکرٹری داخلہ خم ٹھونک کر پریس کانفرنس میں اس کیس کو سلجھانے کا کریڈیٹ لے رہے تھے، تو کئی افسران کا کہنا تھا کہ یہ بس قسمت کی یاوری تھی، اس گروپ یا اس اغوا کے بارے میں بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی جانکاری نہیں تھی۔ عمر سعید کو تفتیش کے بعد دہلی کے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا۔ دسمبر 1999ء کوبھارتی ایئر لائن کے اغواشدہ طیارے اور اسکے مسافروں کے عوض اس کو مسعود اظہر اور مشتاق زرگر سمیت قندھار لیجاکر رہا کر دیا گیا۔ مگر جو سوال ابھی زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ آخر امریکی انتظامیہ عمر سعید کو پھانسی دلوانے پر کیوں بضد ہے؟ جبکہ ڈینیل پرل کا اصل قاتل ان کی ہی قید میں ہے۔ آخر امریکہ گوانتانامو بے میں قید پر ل کے قاتل کویت کے باشندے خالد شیخ محمد کے خلاف فرد جرم کیوں عائد نہیں کر رہی ہے ؟ خالد محمد کو مارچ 2003ء میں راولپنڈی میں پاکستانی اور امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے ایک مشترکہ آپریشن میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس پر 9/11 سانحہ کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ڈینیل پرل کی بیوہ ماریانہ کا کہنا ہے کہ اسکو معلوم تھا کہ پاکستان کی عدالت میں غیر متعلقہ افراد کے خلاف مقدمہ چلایاجا رہا تھا، جو صرف اغوا میں ملوث تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن افراد نے قتل کی واردات انجام دی ،وہ ہنوز انصاف کے کٹہرے سے دور ہیں۔16 اکتوبر 2003 ء کوامریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس نے ماریانہ اور وال اسٹریٹ جرنل کے مدیروں کو فون پر بتایا کہ پرل قتل کی گتھی سلجھ گئی ہے اور خالد شیخ محمد نے اسکی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اسنے گوانتاناموبے میں تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے خود پرل کا گلا کاٹ دیا اور اسکے دو بھتیجے موساد اروشی اور علی عبدالعزیز اس کی فلم بنا رہے تھے۔ علی بھی گوانتا نامو بے میں قید ہے۔ فضل کریم ، جوخفیہ ٹھکانے پر پہرہ دے رہا تھا نے بھی تفتیش کاروں کو بتایا کہ نقاب پوش افراد، جنہوں نے پرل کو قتل کیا ،عرب یا بلوچی تھے۔ اس کی شاخت کی تفصیلات اور بعد میں دیگر سائنسی تکنیکوں نے بھی شکوک و شبہات کی تمام سوئیوں کا رخ خالد شیخ محمد کی طرف ہی موڑا تھا۔ امریکی جارج ٹاون یونیورسٹی کے پرل پرجیکٹ کے مطابق پر ل کے اغوا میں 22افراد ملوث تھے۔ 2011ء میں ہی اس پروجیکٹ کے مصنفین اور تفتیش کاروں نے پیشن گوئی کی تھی کہ پاکستانی عدالت میں جن افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں وہ اپیل میں بری ہو جائینگے۔ سوال ہے کہ آخر امریکی انتظامیہ خالد شیخ محمد اور علی کو پرل کے قتل کے جرم میں ماخوذ کرکے ان کے اوپر فرد جرم کیوں عائد نہیں کر رہی ہے؟وہ حیدر آباد کی جیل میں قید عمرسعید اور اسکے دیگر ساتھیوں کو ہی تختہ دار پر لٹکا کر اس کیس کو کیوں بند کرنے پر مصر ہے؟ آخر اصل قاتل کو کیوں بچایا جا رہا ہے؟ یہ ایک معمہ ہے، جو جواب اور تفتیش کا منتظر ہے۔