حکومت پنجاب نے 16روزہ فیسٹیول ’’لہور لہور اے‘‘منانے کا اعلان کیا ،سولہ روزہ فیسٹیول میں جیلانی پارک، شاہی قلعہ اور اندرون شہر میں ثقافتی پروگرامز اس کا حصہ تھے ،اس کے علاوہ منی میراتھن ریس،دیسی کشتیاں، مشاعرے اورلاہور ثقافت کی ترویج کے پروگرامز فیسٹیول میں شامل تھے ۔اس کا مقصد پنجاب بھر کی ثقافت کو اجاگر کرنا ،کھوئی ہی وراثت کا احیا ء کرنا تاکہ نسلِ نو کواس سے آگاہی ہو سکے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس فیسٹیول کوکامیاب بنانے کے لیے پنجاب بھر کے سرکاری اداروں کا ذمہ داری سونپی تھی ۔گو وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنی ٹیم سے توقعات تھیں کہ وہ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔شاعر مشرق نے کہا تھا : نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذر ا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی محسن پنجاب بھی اپنی ٹیم سے مایوس نہ تھے ،انھیں وزارت و اطلاعات نشریات و ثقافت سے بھی بڑی امید تھی ۔وزارت کھیل ایک کھلاڑی کے سپرد ہے، پنجاب میں کھیلوں کے میدان آباد ہونے کی امید قائم ہوئی تھی۔مگر سب خواب ہی نکلے ۔ان مایوس کن حالات میں میری توجہ ایک شعر کی جانب جاتی ہے : اتنے مایوس تو حالات نہیں لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں ان مایوس کن خبروں میں ایک خوش کن خبر یہ ہے کہ محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب نے محسن پنجاب کی تمام امیدوں سے آگے بڑھ کر 16روزہ فیسٹیول کو کامیاب بنانے میں کردار اداکیا ہے ۔صوبائی وزیر سید اظفر علی ناصرکی وزارت مذہبی اومورکے چیف ایڈمنسٹریٹرو سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے وہ کام کیا کہ عقل بھی دنگ رہ گئی ۔ داتا کی نگری سے تقریبات کا آغاز کیا گیا جو باد شاہی مسجد کے قریب مزار اقبال پر اپنے عروج کو پہنچا ۔سولہ روزہ تقریبات کی کامیابی میں ڈاکٹرسید طاہر رضابخاری کی پوری ٹیم جن میں ،ایڈیشنل سیکرٹری اوقاف پنجاب احمد افنان،ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور آصف علی فرخ، ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن آصف اعجاز، ایڈمنسٹریٹر لاہور محمد اشفاق ڈیال، اسسٹنٹ ڈائریکٹر مذہبی امور حافظ جاوید شوکت، ایڈمنسٹریٹر بادشاہی مسجد محمد علی خان، ایڈمنسٹریٹر لاہور شاہد حمید ورک ، ڈپٹی ڈائریکٹرز طاہر احمد، ایاز احمد حبیب، محمد یوسف ،اسسٹنٹ ڈائریکٹرز جہانگیر علی، ملک ساجد ظفر بوسن۔ منیجر سرکل 6 لاہورحسن رضوان، منیجر سرکل 4 لاہور عرفان احمد، صوبائی خطباء مولانا فتح محمد راشدی، اور مولانا مختار ندیم ،ضلعی خطبا مولانا محمد شفیق،عمران مسعود الرحمن ، مفتی عمران سجاد،منیجرداتا دربا محمد ناصراورکاشف ندیم شامل ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زوال ہمہ گیر ہوتا ہے ۔مگر یہاں معاملہ الٹ ہے ،کئی محکموں میں قیادت کا قحط اور کہیں پر عروج۔ یقینی طور فرد واحد کا صرف ویژن ہی ہوتا ہے ،باقی بھاگ دوڑ ٹیم نے ہی کرنی ہوتی ہے ،یہاں اس پوری ٹیم نے دن رات ایک کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑا پہاڑ بھی سر کر لیتے ہیں ۔فیسٹیول کے اختتام پر وزیر اعلیٰ پنجاب اگر ایواڈ کا اعلان کریں تو یقینی طور پر محکمہ اوقاف پنجاب اس میں سر فہرست ہو گا ۔ " صوفی رنگ" معاشرے میں اَمن اور بھائی چارے کا امین ہے۔ صوفیاء نے خطے کی ثقافتی روایات کو رواداری اور انسان دوستی سے روشناس کروایا۔ دربار حضرت سید ابو الفیض الحسن ؒالمعروف سیدسخی ترت مراد شاہ ؒ کے احاطہ میں مسلسل دوسری محفل سماع کا انعقادکیا گیا ۔جہاں ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور پنجاب آصف علی فرخ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا،نقیب محفل کے فرائض مولانامسعود الرحمن نے نبھائے ،تقریب کا آغازقاری حفیظ اللہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا،دوران تقریب رضوان اسراری نے نعت رسول مقبول ﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ دربار حضرت سید شاہ جمالؓ پر محفل سماع کا انعقاد ہوا، تقریب کا آغازقاری نور عبداللہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا، جس کے بعد محمد رضوان نے نعت رسول مقبول ﷺپیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے تقریب میں شرکت کے لئے آنے والوں کو ’’ خوش آمدید ‘‘ کہا گیا۔ ہر وقت، ہر لمحہ، ہر منٹ، ہر گھنٹہ، ہر دن، ہر ماہ، سبھی سال، زندگی کی پہلی سانس سے آخری سانس تک، تمام زندگی محبت کے لیے، انسانیت کی تعظیم، والدین اور اساتذہ کی تکریم، بہن بھائیوں، ہمسایوں، محلے داروں کے حقوق کے لیے ہیں۔علما کرام صف اول میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ فاصلے کبھی بھی رشتوں کو جدانہیں کرتے اور نزدیکیاں کبھی بھی رشتے نہیں بناتیں، اگر احساس سچے اورپر خلوص ہوں تو رشتے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،جو دوسروں کیلئے راحت کااہتمام کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ان کا مقدربن جاتی ہے، جودوسروں میں آسانیاں تقسیم کریں، آپ کاراستہ خود بخود ہموار ہو جائے گا۔ رب ذوالجلال ہم سب کو محبت اور خلوص کیساتھ آسانیاں تقسیم کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب کے زیر انتظام دربار حضرت شاہ چراغ ؒ پر " لہور لہوراے" کے سلسلہ میں محفل سماع کا انعقادکیا گیا ۔ان تقریبات میںلاہور کی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کی ترویج کو اجاگر کیا گیا ۔مزارات پر تقریبات کا انعقاد اس وجہ سے کیاگیا کیوںکہ انہی صو فیائے کرام نے روادارانہ فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی،جو اخوت،بھائی چارے،انسان دوستی،ایثار و محبت جیسے جذبوں سے آراستہ ہے،ان کے فکر و عمل کا یہ فیضان پورے خطے کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منورکر رہا ہے، آج ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ کے فروغ، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے عوامل کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان اولیائے کرام کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر ان پر عمل پیرا ہوں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے صوفیاء کی تعلیمات کا ابلاغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔دکھی انسانیت کو سکون اور روادانہ فلاحی معاشرے کی منزل میسر آسکے گی۔ ان تمام تقریبات کے اختتام پر باقاعدہ دعا ہوتی تھی ،جس میں دفاع وطن کے لیے سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں لائقِ تحسین پیش کیا جاتا رہاکیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے محراب و منبربڑا مستعدہے۔ مشائخ و سجادگان سوسائٹی کے امن وامان کو مستحکم کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ محراب و منبر حقیقی خوشی کے حصول کا ذریعہ اور سکون کا مرجع ہیں۔ یاد رکھیں، برا بولنے میں اور برا سوچنے میں فرق ہوتا ہے ،بہت سے لوگ آپ کو اچھا بولتے ہوں گے لیکن ضروری نہیں کہ وہ آپ کے لیے اچھا سوچتے بھی ہوں، اس کے برعکس ایک سچا دوست آپ کو برا بول سکتا ہے لیکن آپ کے بارے میں یا آپ کے لیے برا نہیں سوچ سکتا، یقین کامل رکھیں دعا کریں۔