وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں ہندوشائونزم کی مہیب تحریک سبک قدم ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں بھارتی مسلمانوںکی تیرگی میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہا ہے اورہرجہت سے ان پر زعفرانیوں کا شکنجہ سخت ہوتاچلاجارہا ہے ۔حجاب کے بعد بھارت کی ہندودہشت گرد تنظیموں نے ’’حلال مصنوعات ‘‘کومسلمانوں کااقتصادی جہادقراردے کر بھارتی مسلمانوں کا معاشی قتل کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔2اپریل 2022کواس شرمناک مہم کاآغاز بھارتی ریاست کرناٹک سے کیاگیا،جہاں حکومتی سرپرستی میںدہشت گردہندوغنڈے مارکیٹ کی ہر دکان پر جا کر پمفلٹ بانٹ رہے ہیں،جس پر مسلمان قصابوں سے حلال گوشت نہ خریدنے کی ہدایات درج ہیں۔آرایس ایس اور بی جے پی کے چھتر چھائے میں بھارت میں کام کرنے والی درجنوں ہندودہشت گرد تنظیمیں 2014 سے مسلسل مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچا رہی ہیں کبھی لوجہاد،کبھی گائے ذبیحہ ،کبھی ٹرپل طلاق،کبھی شہریت سے بھارتی مسلمانوں کومحروم بنانے،حال ہی میںعفت مآب مسلم خواتین کے حجاب کے خلاف مہمات چھیڑتی ہیں،گذشتہ ماہ کشمیر فائلز کا معاملہ اٹھاتی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ مسلم اقلیت کی اقتصادی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اب ’’ حلال مصنوعات بالخصوص گوشت ‘‘کومسلمانوں کااقتصادی جہاد قرار دے کربھارت کے عام ہندو عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف زہراگل رہی ہیں اور انہیں مسلسل مسلمانان بھارت کے خلاف اکسا رہی ہیں۔ اس صورتحال کودیکھ کر ریاست کرناٹک کے 60 سے زائد دانشوروں نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بومئی کو ایک مشترکہ خط لکھ کر مذہبی منافرت پر روک لگانے کی اپیل کی ہے۔ 2اپریل 2022کوبھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر نیتانے مسلمانوں کے ہاتھوں حلال مصنوعات کو’’اقتصادی جہاد‘‘قرار دے کر حلال مصنوعات بالخصوص گوشت سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔ دوسری طرف ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب اور مندروں کے اطراف میں مسلم تاجروں کو دکانیں نہ دینے کی اپیل کی ہے ۔ ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے ہندوؤں سے اپیل کی ہے کہ اوگاڑی یا سال نو کے تہوار کے موقع پر حلال گوشت نہ خریدیں۔ اوگاڑی کے تہوارکے موقع پر ہندو بڑی مقدار میں بالخصوص بکرے کا گوشت استعمال کرتے ہیں، جو ریاست میں عام طور پر مسلمانوں کی دکانوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ریاستی ترجمان موہن گوڑا کاکہناتھاکہ تصدیق شدہ حلا ل مصنوعات کی خریداری کا مطلب ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرنا ہے۔یادرہے کہ حلال مصنوعات میں سے بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑاکاروبار جس سے ان کی روزی روٹی کاانتظام وابستہ ہے ’’حلال گوشت‘‘ کی مصنوعات ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ ایک طرف حلال گوشت کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جارہی ہے، دوسری طرف پوری دنیا میں مجموعی طور پرایکسپورٹ ہونے والے 94لاکھ50ہزار میٹرک ٹن بیف کے برآمد کنندگان میں بھارت سرفہرست ہے جبکہ اس کے بعد برازیل کی باری آتی ہے۔ بھارت 18 لاکھ پچاس ہزار میٹرک ٹن بیف کی ایکسپورٹ کے ساتھ پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا 13 لاکھ 85 ہزار میٹرک ٹن گوشت ایسپورٹ کرتا ہے امریکہ سے 11 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن گوشت ہر سال ایکسپورٹ کرتا ہے، اسی طرح نیوزی لینڈ اور کینڈا کا شمار ان ممالک کے بعد ہوتا ہے۔ بھارت میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والی سب سے بڑی کمپنی الکبیر ایکسپورٹرز کا نام سے جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ کمپنی کسی مسلمان بھارتی کی ملکیت ہے ۔واضح رہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی حلال مصنوعات میں سے سب سے زیادہ ان کاکاروبارحلال گوشت کی مصنوعات ہے مگراس سب کے باوجودہندوہی اس کاربارکوہائی جیک کئے ہوئے ہیں اورمسلمانوں کو محض مزدوری مل جاتی ہے یعنی مسلمان مزدورجبکہ گوشت کے ایکسپورٹر بھارت کے ہندوہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی گوشت ایکسپورٹ کرنے والی اس کمپنی کے مالک کا نام ستیش سبروال ہے جو کہ ایک کٹر ہندو ہے۔ الکبیر ایکسپورٹرز کا پراسسنگ یونٹ400 ایکٹر پر محیط ہے اسی طرح گوشت ایکسپورٹ کرنے والی تمام دس بڑی کمپنیوں کے نام مسلمان کمپنیوں کے ناموں کی طرز پر ہیں لیکن ان تمام کمپنیوں کے مالک ہندو ہیں۔ جیسے عربین ایکسپورٹرز لمیٹڈ کے مالک کا نام سنیل کپور ہے اور اس کمپنی کا ہیڈ آفس ممبئی کے مرکز میں واقع ہے۔ ایم کے آر فروزن فوڈ ایکسپورٹرز کے مالک کا نام مدن ایبرٹ ہے۔النور ایکسپورٹرز کے مالک کا نام سنیل سود ہے۔ اے او وی ایکسپورٹرز پرائیوٹ لمیٹڈ کے مالک کا نام او پی اروڑا ہے۔ اسٹینڈرڈ فروزن فوڈ ایکسپورٹرز کے مالک کا نام کمل ورما ہے۔ بھارتی محکمہ( APEDA) کے تحت رجسٹرڈ یہ کمپنیاں ویسے تو معاہدے کے تحت صرف بھینس کا گوشت پراسس کرنے کی پابند ہیں لیکن اندرون خانہ بڑے پیمانے پر گائے کا گوشت پراسس کیا جارہا ہے۔ اور حیران کن امر یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو گائے کی سپلائی کرنے والے زیادہ تر دلالوں کا تعلق دو بڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی اور گانگرس سے ہے جو ان کمپنیوں کو گائو ماتا کہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ بھتہ الگ سے لیتے ہیں۔اب یہ تمام اعداد شمار ان انتہا پسند ہندووں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں کہ ایک طرف وہ ایک بیمار گائے کو فروخت کرنے والے مسلمان کو قتل کردینے سے گریز نہیں کرتے ہیں تو دوسری جانب ان ہی کی جماعت اور تنظیموں کے عہدیدار گوشت ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو نہ ان کی گائوماتا نہ صرف بڑے پیمانے پر سپلائی کررہے ہیں بلکہ ان کمپنیوں سے باقاعدہ بھتہ بھی وصول کررہے ہیں۔