6مئی کی صبح بیدار ہوئے تو اپارٹمنٹ کے شمالی رخ پر لگ بھگ بیس فٹ لمبے شیشے سے روشنی لائونج میں بھری ہوئی تھی۔ تارہ اخبار آ چکے تھے۔خلیج ٹائمز‘ گلف نیوز اور کچھ میگزین تھے۔ایک روز پہلے اردو کا ہفت روزہ ’’جانب منزل‘‘ آیا ہوا تھا۔جانب منزل کے چیف ایڈیٹر ارشد انجم سے بعد میں دو ملاقاتیں رہیں۔ بہت عمدہ کاغذ پر چار رنگوں میں چھپنے والا اخبار ہے۔اخبارات کا نیوز ڈسپلے ہم سے الگ ہے۔سرمایہ کاری‘ کاروبار اور دبئی کے حکمران کے تعمیر و ترقی کے متعلق اقدامات کو نمایاں شائع کیا جاتا ہے۔عوامی سروے ‘ چھاپے‘ پولیس کی کارروائیاں‘ چھوٹے بڑے سیاستدانوں کے بیانات اور اس قبیل کی فضول باتیں دبئی کے اخبارات میں نظر نہیں آتیں۔کسی نے بتایا کہ انگریزی اخبارات میں گرامر اور ایڈیٹنگ کے بعض مسائل ہیں۔میرا جواب تھا کہ اخبارات کو ادبی تحریر کے مقابل نہیں رکھنا چاہیے۔یہ روزمرہ کی زبان ہوتی ہے۔خیر ملائشیا میں بھی میں نے دیکھا تھا کہ اخبارات کا لگ بھگ یہی پہلو نمایاں ہے جیسا دبئی میں ہے۔ تھوڑی دیر میں بیڈ روم سے نکل کر لائونج میں آ گئے۔قریب ہی پنڈی بوائز ناشتہ پوائنٹ تھا۔ طاہر علی بندیشہ نے فون پر ناشتہ کا آرڈر لکھوا دیا۔اتنے میں ڈاکٹر اکرم چودھری تشریف لے آئے۔ڈاکٹر صاحب ایک سرگرم اور متحرک شخصیت ہیں۔پاکستان کے کئی حکمران مدینہ منورہ میں ان کی رہائش گاہ پر قیام کر چکے ہیں۔سعودی عرب میں پاکستانی بچوں کے لئے سولہ سال جدوجہد کی اور آخر کار ایک شاندار سکول قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔کئی برس سے یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی پرچم لے کر اکیلے دبئی میں مارچ کرتے ہیں۔سیاسی لحاظ سے نواز شریف کو پسند کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر لگتا ہے کوئی پینتالیس چھیالیس سال عمر ہو گی۔انہوں نے حیران کر دیا کہ 60عبور کر چکے ہیں۔ڈاکٹر اکرم چودھری سعودی عرب سے دبئی منتقل ہوئے تو شارجہ میں ایک ہسپتال قائم کیا۔وہ عرب شخصیات کے ساتھ گہرے مراسم کو پاکستان کی بہبود کے لئے بروئے کار لاتے رہے ہیں۔طب کے شعبہ میں پاکستانیوں کے حصہ کے متعلق پوچھا تو ڈاکٹر اکرم چودھری نے بتایا کہ پاکستان کے ڈاکٹر اور نرسیں بہترین صلاحیت کے مالک ہیں۔یو اے ای میں مواقع موجود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نرسنگ کے شعبے میں بھارت کی ریاست کیرالہ سے بہت سی خواتین متحدہ عرب امارات میںخدمات انجام دے رہی ہیں۔چھٹی کا دن تھا۔جانے ناشتہ پوائنٹ والوں کا کیا مسئلہ تھا کہ انہیں دیر ہو گئی۔بہرحال جب چنے‘ حلوہ پوری‘ نان اور چکن پہنچے تو سیر ہو کر ناشتہ کیا۔میں عام طور پر آدھی روٹی کھاتا ہوں اس وقت ایک روٹی کھائی اور ساتھ تھوڑی سی پوری بھی اڑا لی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ڈاکٹر اکرم چودھری کی میڈیکل لیب دیکھنے چلے گئے۔ اب علاقے کا نام تو یاد نہیں لیکن دبئی کے پررونق علاقے میں واقع ایک کشادہ عمارت میں بنائی گئی لیب ہر طرح کے جدید آلات سے لیس ہے۔وہیں ایک ٹک ٹاکر جوڑی سے ملاقات ہوئی جو ڈاکٹر صاحب کے عزیز تھے۔لیب کا ابھی افتتاح نہیں ہوا تھا۔آرائشی کام جاری تھا اچھا لگا کہ ڈاکٹر اکرم چودھری اپنی زندگی میں پاکستانیت کو نمایاں رکھتے ہیں۔ لیب سے نکلے تو گاڑی کا رخ ابوظہبی کی طرف ہو گیا۔پچھلی بار ہم ابوظہبی نہیں جا سکے تھے۔ابوظہبی متحدہ عرب امارات کا ایک طرح سے مرکز ہے۔اسے آپ امارات کا دارالحکومت کہہ سکتے ہیں۔جلد ہی ہم کھلی سڑک پر آ گئے۔ جبل کا صنعتی زون عبور کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارے بائیں طرف خوبصورت سفید گنبدوں اور میناروں والی مسجد کی جھلک دکھائی دینے لگی۔اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے کئی نخلستان‘کھیت‘ قبرستان اور اہم عمارتیں دونوں جانب نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پر گاڑی گول چکر کاٹتی ہوئی سڑک کے دوسری طرف مسجد والی سڑک پر آ گئی۔شیخ زید جامع مسجد کتنے علاقے پر محیط ہے اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ مسجد کی حدود میں داخل ہو کر اس کی دیوار کے ساتھ 60کلو میٹر فی گھنٹہ سے چلنے والی گاڑی کو پارکنگ تک آتے ہوئے کوئی بارہ منٹ لگے۔مسجد کے سامنے والے حصے میں کھجوروں کے جھنڈ‘ پھول اور آرائشی پودے تختوں کی صورت میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔اندر داخلے کا ایک طریقہ کار ہے جس پر سب کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ہر نسل اور ہر غریب کے لئے لوگوں کے لئے مسجد کے دروازے کھلے ہیں لیکن لباس کا ایک کوڈ نافذ ہے۔کوئی فرد نیکر‘ بنیان یا بنا آستین کے کپڑوں میں مسجد میں نہیں جا سکتا۔غیر ملکی وی آئی پیز اگر نامناسب تصور کئے جانے ولے لباس میں ہوں تو انہیں ایک کائونٹر سے عبا نما لباس عارضی طور پر دیا جاتا ہے۔عام غیر ملکی سیاح خواتین ایک دوسری جگہ سے ایسی عبایا خرید کر پہن لیتی ہیں۔ مسجد میں داخلے کے لئے کیو آر کوڈ پر رجسٹریشن کرانا ہوتی ہے۔کوئی ڈیڑھ کلو میٹر چل کر ہم کیو آر کوڈ والے پوائنٹ پر پہنچے۔یہ ڈیڑھ کلو میٹر کا راستہ برقی راستے‘ بڑی گاڑی یا پیدل طے کیا جا سکتا ہے۔عالی شان راہداری اور برقی زینوں کے ارگرد کئی اہم بین الاقوامی شخصیات کے دورے کی تصاویر آویزاں ہیں۔ملکہ برطانیہ‘ یورپ‘ متعدد ممالک کے سربراہ۔کئی مقامات پر تاریخی اہمیت کی معلومات آوزاں تھیں۔ راہداری کے بعد اچانک ایک ایسے بازار میں جا نکلتے ہیں جہاں قالین‘ نواردات‘ جڑی بوٹیاں‘ ملبوسات ‘ مٹھائیاں اور ریسٹورنٹس ہیں۔جدید چہرے مہرے کا یہ شاپنگ مال اندر سے الف لیلیٰ جیسا طلسمی سا محسوس ہوتا ہے۔ہم نے کئی دکانوں میں داخل ہو کر تصاویر اور ویڈیو بنائیں۔ متعدد دکانیں آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی ہیں جو عربی لباس پہنے۔ عربی میں بات چیت کرتے ہیں۔ہم نے ایک خوبصورت عربی نوجوان کے ساتھ تصویر بنائی۔اسے بتایا کہ ہم لکھاری ہیں وہ عربی میں بتانے لگا کہ اسے علامہ اقبال پسند ہیں ہماری حیرت پر بتایا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے ہے‘ اس کا نام کامران ہے۔(جاری ہے)