وزیر اعظم نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے آئندہ ماہ ملاقات کا وعدہ کیا ہے جس کے بعد احتجاج کرنے والے خاندانوں نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے۔ لاپتہ افراد کے خاندانوں نے پارلیمنٹ کے قریب کئی روز سے دھرنا دے رکھا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے لاپتہ عزیزوں کو بازیاب کرایا جائے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے احتجاج کرنے والے خاندانوں سے ملاقات میں انہیں یقین دلایا کہ وزیر اعظم اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کریں گے۔ احتجاج کرنے والے لواحقین نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ موقع پر موجود 13خاندانوں کے لاپتہ افراد کو تلاش کرنے کا کام ترجیحی بنیاد پر کیا جائے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے مظاہرین نے وزیر اعظم سے لواحقین کا دکھڑا سننے اور جبری گمشدگیوں کا معاملہ قانون کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ لواحقین نے شکوہ کیا کہ گزشتہ تین حکومتوں نے ان کے مسئلے کو نظر انداز کیا ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بیک وقت کئی پہلو سے اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اکثر اس معاملے کو انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے زیادہ ریاست مخالف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لئے لاپتہ افراد کمیشن قائم کیا۔ جناب جسٹس(ر) جاوید اقبال اس کمشن کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے ایسے خاندانوں کی شکایات کا ریکارڈ مرتب کرایا جن کے عزیز ان کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں‘اکثر لاپتہ ہونے والے افراد میں ان لوگوں کو شامل کر لیا جاتا ہے جو مقامی سطح پر قبائلی جھگڑوں اور دشمنیوں کے باعث علاقہ چھوڑ کر کہیں چلے جاتے ہیں‘ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں کہ لواحقین جس شخص کو لاپتہ قرار دے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہونے کا شک ظاہر کر رہے تھے وہ کسی دوسرے ملک میں موجود پایا گیا۔ ان واقعات کی کمی نہیں جن میں سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف کوئی آپریشن کیا یا سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جوابی کارروائی کی تو وہ لوگ مارے گئے یا پکڑے گئے جنہیں لاپتہ قرار دیا جا رہا تھا۔ لاپتہ افراد کمیشن نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے خاطر خواہ کام کیا ہے تاہم وہ لوگ جو اپنے افراد کی گمشدگی کا دعویٰ کرتے ہیں کمشن کو لاپتہ افراد کا تصدیق شدہ پتہ اور گھر والوں کی بابت معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس سے یہ شبہ تقویت پکڑتا ہے کہ اس معاملے کو ملک دشمن عناصر ریاست کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ بلوچستان بیک وقت کئی طاقتوں کا پاکستان کے خلاف میدان جنگ بنا ہوا ہے‘ سب سے زیادہ تخریبی سرگرمیاں پڑوسی ملک بھارت کی سرپرستی میں ہو رہی ہیں‘ مغربی پڑوسی افغانستان کی سرزمین بھارتی ریشہ دوانیوں کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔افغانستان میں موجود بھارتی قونصل خانے ایسے تربیتی کیمپوں کو چلاتے ہیں جہاں پاکستان میں دہشت گردی کے لئے عسکریت پسندوں کو تربیت دی جاتی ہے‘ آرمی پبلک سکول پر حملے کا واقعہ ہو یا مال روڈ لاہور پر پولیس افسران پر خودکش حملہ ہو‘ گزشتہ برس گوادر میں فائیو سٹار ہوٹل پر حملہ ہو یا پھر کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا معاملہ ہو‘ ان واقعات میں بھارتی ہاتھ ملوث دکھائی دیا‘ کئی واقعات میں حملہ آوروں کی جب نشاندہی ہوئی تو معلوم ہوا یہ تو ایسے مفقود الخبر افراد ہیں جن کے لواحقین ان کے ریاستی اداروں کی حراست میں ہونے کا بتاتے رہے ہیں۔ ایک مہذب اور ذمہ دار ریاست اپنے شہریوں کے آئینی حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی نہیں‘ بہت سے بلوچ سندھی اور پختون قوم پرست ریاست اور ریاستی اداروں سے اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہیں‘ شکایات کو قانونی اور آئینی طور پر جائز ہونے کی وجہ سے ان کے ازالے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ شکایات کا سوفیصد ازالہ مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ ہمارے انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی سستی‘ نااہلی‘ کرپشن اور اقربا پروری ہے۔ ایسا صرف بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تھانوں‘ کچہریوں اور سرکاری دفاتر میں بھی بے سہارا اور کمزور لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ یہ لوگ کبھی یہ نہیں کہتے کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کسی ادارے کے ایما پر ہو رہی ہے۔ بلوچستان محرومیوں کا شکار ہے۔ ان محرومیوں کی وجہ وہاں سرداری نظام کا شکنجہ ہے‘ عام بلوچ ریاستی فوائد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اسے یہی بتایا جاتا ہے کہ اس کے دکھوں‘ محرومیوں اور تکالیف کی ذمہ دار ریاست ہے۔ ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان بیگانگی اور اجنبیت کی یہ دیوار عشروں سے اونچی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے سینکڑوں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اسلام آباد آنے والے بلوچ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار اور ان سے ملاقات کا وعدہ خوش آئند ہے۔ وزیر اعظم کو ان دکھی خاندانوں سے ضرور ملنا چاہیے۔ اگر حکومت ان کے لاپتہ عزیزوں کا پتہ چلانے میں مدد کرے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لاپتہ افراد کمشن میں خود بلوچ نمائندوں کا موقف ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے بلوچستان میں بدامنی میں ملوث افراد کا پتہ چلا کر ان کے لواحقین کے اطمینان کا سامان کیا جا سکتا ہے تاہم جو لوگ ریاستی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔