وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لاک ڈائون میں مرحلہ وار نرمی کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔اس فیصلے کا تناظر ملک میں معاشی ابتری کے خدشات اور کورونا وائرس کا کم خطرناک ہونا ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی تمام صوبوں کی مشاورت سے لاک ڈائون میں نرمی یا موجودہ حالت میں برقرار رکھنے کافیصلہ کرے گی۔ ملک بھر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 22ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ پورے ملک سے فروری سے لے کر اب تک کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 514 ہو گئی ہے۔ منگل کے روز پاکستان میں 40اموات ہوئیں جبکہ پہلی بار ایک روز میں 10ہزار سے زائد افراد کے کورونا ٹیسٹ کئے گئے۔ 6230افراد صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ منصوبہ بندی کے وزیر جناب اسد عمر معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزااور خود وزیر اعظم کورونا کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں کورونا کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت کم رہا ہے۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کورونا کے مریض سرکاری ریکارڈ سے زیادہ ہیں۔لوگ ٹیسٹنگ سہولیات کم ہونے کے باعث سامنے نہیں آ پا رہے۔کورونا کے نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کا موقف پہلے دن سے الگ تھا۔ وزیر اعظم کے رفقا اور بین الاقوامی ماہرین انہیں سخت لاک ڈائون کا مشورہ دے رہے تھے۔ چین میں ہزاروں افراد کی موت نے اکثر افراد کو اس بات کا قائل کر دیا تھا کہ جدید طب اس مرض کا علاج ڈھونڈنے میں تاحال ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس لئے کورونا کو روکنے کا سب سے موثر طریقہ لاک ڈائون ہے۔ لاک ڈائون کے حامی حکام کی یہ بات درست تھی کہ پاکستان میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستانی عوام چینیوں جیسے نظم و ضبط کے پابند بھی نہیں۔ اس حالت میں کورونا کی وبا بڑے پیمانے پر پھیلی تو حالات سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ لاک ڈائون کس طرح کا ہو اور اس دوران شہریوں کو کس حد تک گھر سے نکلنے کی اجازت ہونی چاہیے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کا موقف زیادہ سخت تھا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ کی قیادت نے تو وزیر اعظم کے خلاف تنقیدی محاذ کھول دیا تاہم وفاق کا کہنا تھا کہ ملک میں کروڑوں افراد دیہاڑی دار ہیں اس لئے ملک کو بند کر کے لوگوں کو بھوکا نہیں مارا جا سکتا۔ اس صورت حال میں بھوک اور کورونا دونوں سے بیک وقت لڑنا تھا۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا کہ لاک ڈائون کیا جائے لیکن فارمیسی‘ سبزی‘ دودھ دہی کی دکانیں اور ورکشاپ کھلی رہیں گی۔ جنرل سٹور شام آٹھ بجے تک کھلے رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ بعدازاں دکانوں کا وقت صبح 9سے شام 5بجے تک کر دیا گیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے بجا طور پر سڑکوں پر گاڑیوں کا رش کم ہونے سے آلودگی میں کمی آئی‘ کراچی کا ساحل اور اس سے ملحق سمندر کا پانی شفاف دکھائی دیے۔ شور کی سطح کم ہوئی۔ صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا کے ماحولیات میں بہتری محسوس کی جا رہی ہے لیکن اس دوران کاروبار بند ہونے سے معیشت تباہ ہو گئی۔ پاکستان ایک سو ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ عالمی ساہوکار ادارے اپنی شرائط کے مطابق قرضوں کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں‘ ان حالات میں کاروبار بند ہونے سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف بری طرح متاثر ہوا۔ حالات اس سطح پر پہنچ گئے کہ سخت لاک ڈائون کا مطالبہ کرنے والے صوبہ سندھ میں دیہاڑی دار افراد ہجوم کی صورت میں گھروں سے نکل آئے۔ کئی مقامات پر پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت کو قیادت کرنے کا کہا۔ کورونا کی وبا صرف طبی ایمرجنسی نہیں، اس وبا نے معیشت اور سماجی زندگی کو بھی یکساں متاثر کیا۔ کورونا کا انسداد کرنے کے لئے طبی عملے‘ آلات اور عالمی ادارہ صحت کی رہنمائی میں حکمت عملی وضع کرنا نسبتاً آسان کام ہے لیکن ایک غریب ملک اپنے عوام کو بھوک سے کیسے بچائے اس کا فیصلہ خود قومی قیادت کو کرنا تھا۔روزنامہ 92نیوز میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے دنیا کے باقی ممالک کی نسبت کورونا اور اس سے متاثرہ صورت حالات سے نمٹنے کے لئے زیادہ بہتر حکمت عملی اختیار کی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے بروقت اور درست اقدامات کر کے ایک طرف کورونا کی وبا کو محدود کیا اور دوسری طرف روزگار کو سنبھالا دیا۔ وزیر اعظم جی 20ممالک‘ آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے درخواست کر چکے ہیں کہ پاکستان اور اس جیسے مقروض غریب ممالک کو قرضوں میں معافی‘ ادائیگی میں سہولت اور سود میں رعایت دی جائے۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں جی 20ممالک کو پیش کرنے کے لئے ضروری دستاویزات تیار کر لی ہیں۔ کورونا وبا کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رہے کہ جانی نقصان کم ہونے کے باوجود ملک میں اس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ معیشت کا پہیہ گھومتا رہے اس لئے حکومت تعمیراتی صنعت کو کھول چکی ہے۔ کئی کارخانے اور کاروباری مراکز بھی کھولے جا چکے ہیں اور حکومت کی طرف سے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اصولی بات یہی ہو سکتی ہے کہ لاک ڈائون کو کسی دوسرے ملک کی حالت پر قیاس نہ کیا جائے۔ حکومت نے فیصلہ کرتے وقت یقینا طبی ماہرین اور انتظامی حکام سے مشاورت کی ہو گی۔ لاک ڈائون نرم کرنے سے اگر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل یقینی بنا لیا جائے تو مضائقہ نہیں۔