جموں و کشمیر کا دور افتادوہ اور پسماندہ لداخ خطہ ، جہاں اسوقت چینی اور بھارتی فوج برسرپیکار ہے، ایک صدی قبل تک خاصا متمول اور متحدہ ہندوستان ، تبت، چین ، ترکستان و وسط ایشیا کی ایک اہم گذرگاہ تھا۔ خوبصورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک رنگ برنگے اونچے پہاڑ، بنجر اور ویران لمبے چوڑے میدان، خاصی حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثل ہیں۔ پچھلے سال اگست میں بھارت نے اس خطہ کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام کر دیا۔ دو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطے کا رقبہ نقشہ پر 97,872مربع کلومیٹر ہے۔ مگر اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر تصرف ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف 58,321مربع کلومیٹر ہی ہے۔ اکثر لکھاری اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ گردانتے ہیں۔ جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی دو لاکھ 74ہزار کی آبادی میں 46.40فیصد مسلمان اور 39.65فیصدبدھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بدھ آبادی 66.39فیصد ہے۔مگر اس ضلع میں بھی 25مسلم اکثریتی گائوں ہیں۔ اس خطے کی نامور شخصیت اور تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا ، کہ ترکی یہاں کی دوسری زبان تھی۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔ تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کیلئے ترکستان یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کیلئے لداخ ایک اہم زمینی رابط تھا۔ لیہہ شہر میں بدھ خانقاہ نمگیال سیمو گمپا اور اسے سے کچھ فاصلے پر تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ نے ذرا ذکر چھیڑا تو وہ یارقند، کاشغر یا تبت کے دارالحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی ڈھیر ساری کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے ایک بار بتایا کہ وہ عذاب الہی کے شکار ہوگئے ہیں،کیونکہ ان کے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔ لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق کشمیر کی طرح لداخ بھی 20ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کی بقا ،ترقی ، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارومدار قراقرم کے بند دروں کو دوبارہ تجارت اور راہداری کیلئے کھولنے میں ہی مضمر ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے کے بلند و بالا پہاڑوں سے ہوکر گذرتی تھی۔ چین کے ذریعے 1949ء میں مشرقی ترکستان یعنی سنکیانگ پر اور پھر 1950ء میں تبت پر قبضہ کے بعد آہنی دیوار کھڑا کرنے سے راہداریاں بند ہوگئیں۔ مگر سب سے زیادہ نقصان 1947ء میں تقسیم ہند اور تنازعہ کشمیر کی وجہ سے خطے میں پیدا ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔ 1962ء کی بھارت ۔چین جنگ سمیت، یہ خطہ پانچ جنگیں جھیل چکا ہے۔۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی روابط منقطع کروا کے اسکو غریبی اور افلاس میں دھکیل کر رکھ دیا ہے ۔جمو ں و کشمیر کے محکمہ سیاحت کے سابق سربراہ اور محقق سلیم بیگ کا کہنا ہے کہ کشیدگی اور سیاسی واقعات نے اس خطے کو مرکز سے دنیا کے ایک کونے میں لا کر کھڑا کرکے رکھ دیا ہے۔اس خطے میں سرکاری ملازم اپنی تقرری کو سزا تصور کرتے ہیں۔ نویں صدی کی ا یک فارسی قلمی دستاویز حدود عالم کے بقول وسط ایشیاء کے جو لوگ حج پر جاتے تھے ،لداخ ان کیلئے ایک اہم پڑائو ہوتا تھا، ان روابط کی وجہ سے ترک زبان رابطہ کے ایک ذریعہ کے بطور رائج ہوگئی تھی ۔ خود لداخی زبان میں کئی ترک الفاظ داخل ہوگئے ۔ ترک تاجروں نے لداخ میں سکونت اختیار کرکے کشمیری اور لداخی عورتوں سے شادیا ں کی۔ ان کی نسل کو ارغون کہتے ہیں۔ دیگر نسلوں میں یہاں مون، منگول اور درد قابل ذکر ہیں۔ 90ء کی دہائی تک لداخ میں مسلم اور بدھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔مسلمان نام بھی مقامی یعنی محمد زیرنگ جیسے ہوتے تھے۔ مغل دور میں لداخ کے باج گذار نمگیال خاندان کے فرمانروا خطوط و سکوں پر محمود شاہ یا اسی طرح کے مسلمان ناموں سے اپنے آپ کو کہلوانا پسند کرتے تھے۔ لداخی بدھ البتہ ڈوگرہ ہندوٗں کے تئیں خلش رکھتے تھے۔ وہ یہ بھول نہیں پار ہے تھے کہ جب 1841ء میں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی تو ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بناکر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ مگر جو ں جوں بھارتی سیاست کے عنصر لداخ میں پروان چڑھتے گئے، دونوں فرقوں کے درمیان محاذ آرائی بھی شروع ہوگئی۔ بدھ فرقہ کو بتایا گیا کہ ان کی پسماندگی کی وجہ سرینگر کے حکمران ہیں۔ چونکہ پوری ریاست میں ان کی آبادی سکھوں سے بھی کم یعنی 0.89فیصد تھی، تو ان کا مجموعی سیاسی وزن بھی کم تھا۔ اسلئے 90ء کے اوائل میں یہاں کی بد ھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کرنے اور مرکز کا زیر انتظام علاقہ بنانے کیلئے ایجی ٹیشن شروع کی۔ مسلمانوں نے اسکی جم کر مخالفت کی۔ اس کے رد عمل میں بد ھ تنظیموں نے مسلمانوں کے سوشل بائیکاٹ کی کال دی ، جو 1994ء تک جاری رہا۔یہ شاید دنیا کی تاریخ میں کسی بھی فرقہ کے خلاف طویل ترین بائیکاٹ ہوگا۔ 1994ء میں جب کشمیر میں گور نر راج نافذ تھا تو گفت و شنید کے بعد لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل تشکیل دی گئی۔ اس کو بجٹ بنانے کا اختیار دیکر مقامی انتظامیہ کو اس کے ماتحت کردیا گیا۔ بعد میں 2003ء میں وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے قریبی مسلم اکثریتی کرگل ضلع کے لئے بھی اسی طرح کی کونسل کی منظوری دے دی۔ 2012ء میں اس ضلع کے بد ھ اکثریتی تحصیل زنسکار میں بدھ آبادی نے مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ وجہ تھی کہ بدھ فرقہ کے 22افراد مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔چونکہ ہندو مت کی طرح لداخی بدھوں میں بھی ذات پات کا عنصر سرایت کر گیا ہے، اسلئے نچلی ذات کے بدھ خاصے نالا ں رہتے ہیں۔ زنسکار بد ھ ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کے بعد عرصے تک مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کردیا۔ اگر کوئی بدھ کسی مسلم تاجر سے کوئی بھی چیز خریدتا ہو ا پایا جاتا تو اس پر باقاعدہ جرمانہ عائد ہوجاتا تھا۔ جو کونسل کے سرکاری خزانہ میں جمع کیا جاتا تھا۔ لداخ کا خطہ کئی عجیب و غریب رسم و رواج کی وجہ سے بھی خاصا مشہور ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی مورخوں نے درد نسل کو اصل اور مستند آرین نسل قرار دیا ہے۔ 1979ء میں دو جرمن خواتین کو اس خطہ میں چند ممنوعہ علاقوں میں گھومنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مرد ساتھیوں کی تلاش میں تھیں، تاکہ اصیل آرین نسل پیدا کر سکیں۔ابھی بھی متواتر ایسی خبریں آتی ہیں کہ مغربی ممالک کی نسل پرست خواتین علاقے میں مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کرنے آتی ہیں۔ جرمن بھی اپنے آ پ کو مستند آرین نسل تصور کرتے ہیں۔ اس علاقے میں کئی دیہاتوں میں ابھی بھی ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے ہیں، گو کہ اس رسم پر 1950ء میں قانونی طور پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اکثر ایک خاندان میں دو بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی ہے، تاکہ زرعی زمین کی تقسیم روکی جاسکے۔ پورے خطے میں زرعی زمین کا رقبہ محض 620مربع کلومیٹر ہے۔کئی دیگر رسوم بد ھ کلچر کا حصہ ہیں۔ نوبرہ تحصیل کے نمبردار زیرنگ نمگیال کے مطابق اکثر خاندان سب سے چھوٹے بیٹے کو لاما بنانے کیلئے خانقاہ بھیجتے ہیں۔ لاما لداخیوںکی زندگی کا اہم جز ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی دیہاتوں میں ایک یا دو بدھ خانقاہیں ہیں، جن کا انتطام و انصرام لامائوں کے سپرد ہوتا ہے۔ (جاری ہے)