لداخ خطے میںقابض بھارتی فوج کے زیرنگرانی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق لداخ کی کل آبادی 2لاکھ 70ہزارنفوس پرمشتمل ہے’’ ان اعدادوشمارمیں بھارتی فوج نے مبالغے سے کام لیاہے ورنہ یہاں کی آبادی دو،اڑھائی لاکھ سے زیادہ نہیں‘‘ جو زیادہ ترگلہ بانوں اورچرواہوں پرمشتمل ہے ۔ لداخ بنیادی طورپرایک غیرزرعی علاقہ ہے تاہم جدیدٹیکنالوجی کوبروئے کارلاکریہاں اب جو، گندم اورمٹر کاشت ہوتے ہیں لیکن محدود ،جبکہ پھلوں میں یہاں خوبانی اورچیری کاشت ہوتی ہے ۔اس طرح کہاجاسکتاہے کہ لداخیوں نے منفرد موسم اورمخصوص آب وہوا کے تحت چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کانظام تیار کیاہے جوکم ہی سہی لیکن کسی حدتک ان کی معیشت کومدددے رہا ہے۔ بنیادی طورپر مال ومویشی پالنا لداخ کے مکینوں کااصل ذریعہ آمدن اورذریعہ معاش ہے۔یہاں کے مکین خاص طور پر ’’یاک ‘‘ جسے جنگلی یاپہاڑی نسل کی گائے کہاجاتاہے اور بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں اوربکریوں میں بھی ایک خاص نسل یہاں پائی جاتی ہے جوشایددنیامیں اورکہیں نہیں پائی جاتی ہے۔پشمینہ جوایک قسم کی اعلیٰ درجے کا اون ہوتاہے پیدا کرنے والی یہ خاص نسل کی بکریاں لداخ میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں چنانچہ ان کی پشم سے کشمیر میں قیمتی پشمینہ تیار ہو کر ساری دنیا میں جاتا رہا ہے۔یہ پشمینہ لداخ کا سفید سونا کہلاتا ہے اوریہ سوائے لداخ اور تبت کے کہیں پیدا نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ برطانیہ اور روس نے ان بکریوں کو اپنے ملکوں میں منگوا کر پشمینہ پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے کیونکہ ان مخصوص بکریون کو ان ملکوں کی آب و ہوا راس نہیں آئی۔اس کے علاوہ ماضی قریب ہمارے بچپنے میں لداخی اون سے بنے ہوئے موٹے قسم کے گرم سویٹر،اونی مفلر،ٹوپیاںاورمختلف رنگوںکی اونی جرابیں بناکرسری نگرمیں سٹال لگاتے ہوئے گاہکوں کوبیچتے تھے تاہم شایداب نہیں۔ گلہ بان اورچرواہے جن بکریوں سے اون حاصل کرتے ہیںوہ بھارت اور چین میں جاری تنازع کی وجہ سے اپنی چراگاہیں چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ مقامی چرواہوں کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران ان بکریوں کے ہزاروں بچے بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔لداخ کے بھارتی علاقے میں پشمینہ اون کی پیداوار کے لیے کام کرنے والی 'پشمینہ گرورز کوآپریٹیو مارکیٹنگ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ پشمینہ بکری کا بچہ لگ بھگ تین سال کی عمر میں پشمینہ اون دینا شروع کرتا ہے لیکن ان بچوں کی تعداد میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔بھارت اور چین کے درمیان دونوں ممالک کے فوجی متعدد بار آمنے سامنے آ چکے ہیں کیوں کہ اس علاقے کے بیشتر حصے کی واضح حد بندی نہیں ہوئی ہے۔ ان کاکہناہے کہ لداخ کے جوعلاقے چین کے ملحق ہیںتویہاں بیشتر لوگوں کا گزر بسر مویشیوں پر منحصر ہے لیکن چین کے آگے بڑھنے کی وجہ سے انہیں اپنی چراگاہیں کھو دینے نے بے چین کردیا ہے۔لداخ کے مکینوں کاکہناہے کہ چین کئی سالوں سے ہماری زمینوں پر تجاوزات قائم کر رہا ہے اورلداخی خانہ بدوشوں نے یہ بات ہمیشہ حکام کے سامنے اٹھائی ہے لیکن کسی نے بھی بات نہیں سنی اور اب پریشانی کاعالم پڑا ہے۔پشمینہ بکریوں کی چراگاہوں کے لیے روایتی طور پر مخصوص علاقہ ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے۔بھارت اور چین کی موجودہ کشیدگی کی وجہ سے لداخ کے گلہ بانوں کو کاک جونگ، تم سیلے، دمچوک اور کروزوک میں واقع چرا گاہوں کے قریب جانے نہیں دیا گیا اوربھارتی فوج نے ان گلہ بانوں کوپیچھے دھکیل دیاہے۔جس کے باعث رواں برس پشمینہ اون والی ان بکریوں کے 85فی صد بچے مر چکے ہیں۔ ان کے مرنے کی وجہ ان بکریوں کے ریوڑوں کا اس بار روایتی چرا گاہوں کے بجائے ان علاقوں کی جانب جانا ہے جہاں ان کے لئے گھاس اورچارہ نہیں ہے۔لداخیوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال قبل تک سردی کے موسم میں وہ جم جانے والے دریائوں کو عبور کر کے ان چرا گاہوں تک پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اب ان علاقوں پر چین کی فوج کا قبضہ ہے۔ ماہرین حیوانات کاکہناہے کہ بڑے پیمانے پر پشمینہ بکریوں کی ہلاکتیں آنے والے برسوں میں اس شعبے کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گی۔خیال رہے کہ لداخ میں پائی جانے والی ان خاص بکریوں سے سالانہ 50ٹن تک انتہائی اعلی اور مہنگی اون’’پشمینہ‘‘ حاصل کی جاتی ہے۔ اس پشمینہ اون سے وادی کشمیر میں صنعت و حرفت سے منسلک دست کاروں کے ہاتھ سے بنائے گئے ’’پشمینہ شال‘‘ بنتے ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ پشمینہ بکریوں سے حاصل ہونے والے سوت کو اون کی شکل دی جاتی ہے اور عمومی طور پر اس سے شال بنائی جاتی ہیں۔ پشمینہ اون کی شالیں دنیا کے مہنگے ترین اسٹورز پر فروخت ہوتی ہیں۔ ان شالز کی قیمت 800ڈالرز تک ہوتی ہے۔ خانہ بدوشوں کے قبیلے چنگ پہ کے ایک ہزار خاندان ہر سال گرمیوں کے موسم میں اپنی ہزاروں پشمینہ بکریوں، تبتی بیل اور گھوڑوں کے ہمراہ پانچ ہزار میٹریعنی 15ہزارفٹ کی بلندی پر واقع پہاڑی علاقے چانگ تنگ کا رخ کرتے ہیں۔وہ عمومی طور پر ان کم بلندی والی چرا گاہوں میں جانور چراتے تھے جو تبت اور دیگر دریائی علاقوں کے ساتھ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں سخت سردی کے مہینوں یعنی دسمبر سے فروری میں درجہ حرارت منفی 50 ڈگری تک گر جاتا ہے۔ریوڑ چرانے والے ان خانہ بدوشوں کے لیے بھارت اور چین کا تنازع مشکلات میں مزید اضافہ کر رہا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سردیوں میں سخت حالات اور گرمیوں میں خشک موسم کا سامنا کر رہے ہیں۔مشکلات میں اضافے کے باعث کئی افراد اپنے اس خاندانی کام کو چھوڑ رہے ہیں اور لداخ کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں تاکہ زندگی گزارنے کے لیے نئی راہیں تلاش کر سکیں۔