پی ٹی آئی حکومت کو درپیش معاشی بحران کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی محنت اور دیانتداری کو کسی طریقے سے قوم کے لئے فائدہ بخش بننے سے روکا جا رہا ہے۔ زیادہ آسانی سے بات سمجھنا ہو تو وہ جو عمران خان نے کہا تھا ’’یہ جمہوریت خطرے میں ہونے کا شور مچائیں گے‘‘ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو کوئی اندر سے کھوکھلا کرنے کے مشن پر ہے۔ جونہی حکومت نے اپنے پہلے سو روز مکمل کئے اس پر نئے حملے ہو گئے۔ ان حملوں کا موقع بہرحال عمران خان نے خود دیا۔ لاہور میں گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے کی ضد بے جا تھی۔ اس سے جگ ہنسائی ہوئی۔ پاکستانی سماج کی لفظیاتی اقدار کو جانے بغیر سگریٹ پر ’’گناہ ٹیکس‘‘ کی بات کر دی گئی۔پھر کچھ اینکرز سے گفتگو میں قبل از وقت انتخابات کی بات کر دی۔ یقینا سچائی یہی ہے کہ تحریک انصاف جب اپنے منشور پر پوری طرح عمل کرنا چاہے گی تو اسے پارلیمنٹ میں اپنے اتحادیوں سے سودے بازی کرنی پڑے گی۔ عمران خان ابھی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ ‘ڈیموں کی تعمیر یا کسی اہم آئینی ترمیم کے وقت انہیں مطلوبہ حمائت نہ ملنے کا خدشہ ہوا تو وہ قبل از وقت انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں تاکہ عوام سے زیادہ مینڈیٹ لے کر اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کریں۔ لیکن اس سے پہلے انہیں وہ کام کرنے ہوں گے جن سے عوام ان کی حکومت کی انتظامی صلاحیت سے مطمئن ہوں۔ جولائی 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف نے بہت سے ایسے امیدوار میدان میں اتارے جن کی سیاسی تربیت نہیں تھی۔ لاہور میں تحریک انصاف کی حمائت اس سے کہیں زیادہ موجود ہے جس کا عکس انتخابات میں نظر آیا۔ یہاں اعجاز چودھری جیت سکتے تھے۔ ضمنی انتخابات میں خواجہ سعد رفیق کو ہرایا جا سکتا تھا۔ اسد کھوکھر کی ہار کو جیت میں بدلا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ وجہ یہ کہ کچھ لوگوں نے اپنے دوست پراپرٹی ڈیلرز کو ٹکٹ دلائے۔ یہ کہہ کر کہ یہ انتخابی اخراجات برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جن تین حلقوں کی نشاندہی کی ہے وہاں انتخابی مہم کے دوران خاموش اکثریت شمار ہونے والے ووٹرز سے رابطہ اب کے بار بھی نہ کیا گیا۔ انتخابی دفتر بنانے اور نعرہ بازی کرنے والے بے روزگار وںکی خدمات حاصل کرنے کو انتخابی مہم قرار دیدیا گیا۔ ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے ووٹروں نے کسی کے کہے بغیر عمران خان کو ووٹ دئے۔ دوسرے حلقوں میں بھی ظالمانہ نظام سے بیزار ووٹروں نے کسی کے کہے بغیراپنی مرضی سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے۔ اب جب پی ٹی آئی صوبے اور مرکز میں حکومت بنا چکی ہے تو عوام اور نمائندوں کے درمیان رابطہ نہ ہونے کا معاملہ مسائل پیدا کر رہا ہے۔ گرین ٹائون میں ایک پارک ہے۔ اس پارک کے سامنے ایک کشادہ جگہ ہے جو سکیم بنانے والے ملک کینیڈا کے ماہرین نے 1969ء میںبس سٹاپ کے لئے مختص کی تھی۔ پارک اور بس بے کے درمیان چند کمرشل پلاٹ قدیمی نقشے میں موجود ہیں۔ اس علاقے میں منشا بم اور اس کے ساتھیوں کی کارروائیاں پچھلے تیس سال سے جاری ہیں۔ ایسے گروہوں کا سرغنہ عموماً ایل ڈی اے کا کوئی ریٹائرڈ‘ حاضر سروس یا برخاست کیا گیا ملازم ہوتا ہے جو ریکارڈ سے اہم شواہد غائب کر کے ایسی جگہوں کی ملکیت کے کاغذات بنا لیتا ہے جن پر کسی الاٹی کا دعویٰ نہیں ہوتا۔ عموماً پارکوں ‘ سکولوں اور بس بے کے لئے مختص پلاٹ ان کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔ ایک ایسے ہی قبضہ گروپ نے پارک کے سامنے کمرشل پلاٹوں پر ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ گزشتہ پچاس سال سے یہ پلاٹ سرکاری ملکیت تھے۔ علاقے کے ایم پی اے نذیر چوہان ہیں۔ انہوں نے ایک بار بھی معاملے میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔ اعجاز چودھری ایک بار رات کے وقت آئے۔ دو چار لوگ ساتھ لائے تھے۔ مقامی آبادی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ کون آیا۔ ایل ڈی اے عملے کو خود کلامی کے انداز میں برا بھلا کہا اور چلے گئے۔ قبضہ گروپ نے علاقے کے دو کونسلروں سمیت پندرہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروا رکھی ہے۔ اس جگہ عید کے موقع پر چار پانچ ہزار لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔ میری امی‘ دادی‘ دادا سمیت علاقے کے سینکڑوں مرحومین کی نماز جنازہ یہاں ہوئی ہے۔ مقامی آبادی حکومت اور پی ٹی آئی کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن انتخابی مہم کے دوران جو چلن تھا وہ اب تک برقرار ہے۔ نذیر چوہان صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے میڈیا سے گفتگو کے دوران پیچھے کھڑے ہونے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ شائد نہیں جانتے کہ عوام انہیں اس طرح یاد نہیں رکھیں گے ورنہ رانا ثناء اللہ کے پیچھے بھی کئی لوگ کھڑے ہوتے تھے اور کیمروں میں خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ایک بہت بڑی خلیج ہے جو پی ٹی آئی حکومت اور لاہور کے ووٹرز کے درمیان حائل ہو رہی ہے۔ پارٹی کے وہ چند لوگ جو متحرک تھے اور عوام سے رابطہ میں رہتے تھے۔ انہیں ٹکٹ نہ ملا‘ مزید ستم یہ ہوا کہ پورے لاہور میں ایسے گروپ بن گئے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں اپنی اپنی لابی بنا کر ذاتی کام نکلوانے کی فکر میں ہیں۔ پرانے کارکنوں کو عمران خان نے یاد رکھا ہوا ہے مگر کیا ان کا یاد کر لینا کافی ہے۔ بہتر نہ ہو گا کہ انہیں پارٹی کی تنظیم نو کا کام سونپ دیا جائے۔؟ اس طرح انہیں نظر انداز کئے جانے کا رنج نہیں رہے گا۔ اگر پارٹی تنظیم نہ ہوئی‘ متحرک اور پرانے کارکنوں کو عہد اقتدار میں اراکین اسمبلی کے مقابل اہمیت نہ دی گئی تو قبل از وقت انتخابات میں تبدیلی واپس بھی ہو سکتی ہے۔