گھوٹکی کے قریب سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس کے حادثہ میں 45افراد کے جاں بحق اور 100سے زاید زخمی ہوئے ہیں۔حادثہ سوموار کی صبح اس وقت پیش آیا جب کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹڑی سے اتر کر دوسری طرف سے آنے والے ٹریک پر جاگریں۔ اس اثناء میں راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس اپنے ٹریک پر گریہوئی بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے حادثے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے وزیر ریلوے اعظم خان سواتی کو زخمی و جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو بھر پور معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے ریلوے کے حفاظتی نظام میں نقائص کی نشاندہی اور حادثہ کی تحقیقات کا حکم بھی صادر کیا۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ ملت ایکسپریس کی بوگیاں گاڑی سے الگ ہو کر پٹڑی سے اتریں۔ بوگیوں کو ایک دوسرے سے باندھے رکھنے والا ہک مناسب طریقے سے باندھا نہ جا سکا یا پھر کسی نے اس ہک کو کھول دیا۔ ریل حادثات وقفے وقفے سے ہو رہے ہیں ،اکتوبر 2019میں ضلع رحیم یار خان کے قریب تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی کی انکوائری رپورٹ میں حادثے کی وجہ شارٹ سرکٹ بتائی گئی ۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آتشزدگی کی بنیادی وجہ بجلی سے چلنے والی کیتلی کے باعث شارٹ سرکٹ ہونا تھا جبکہ سلنڈرز کی موجودگی سے آگ مزید بھڑکی۔یاد رہے کہ آتشزدگی کے باعث پیش آنے والے اس حادثے میں بہت سے افراد ہلاک ہو گئے تھے اور حادثے کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حادثہ گیس سلنڈر پھٹنے کے باعث پیش آیا۔ ریل کا سفر محفوظ بنانے کے لیئے کچھ حفاظتی ایس او پیز ترتیب دئے گئے۔ان ایس او پیز کے تحت ٹرین چلنے سے قبل انجن اور بوگیوں کی بریکیں، پانی کی دستیابی، بجلی کے نظام ، بوگیوں کو ایک دوسری سے منسلک کرنے والے ہک وغیرہ کی جانچ کی جاتی ہے ۔ ریل حکام کے مطابق گاڑی میں آگ بجھانے والے آلات موجود ہوتے ہیں لیکن یہ ہر بوگی یا کوچ میں نہیں بلکہ آلات گاڑی کے ڈرائیور، گارڈ، ایئر کنڈیشنرز کے نگران اور چارجنگ پلانٹ کے نگران کے پاس ہوتے ہیں مگر یہ آلات چھوٹی یا محدود سطح کی آگ بجھانے کے لیے ہوتے ہیں ۔ بڑے پیمانے پر آتشزدگی کی صورت میں یہ آلات کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ریل گاڑی میں بجلی اور مکینیکل سطح پر سامان کی مرمت اور اسے ہمیشہ قابل استعمال رکھنے کے لیے عملہ تعینات ہوتا ہے مگر اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ریل گاڑیوں میں بجلی کا سامان مثلاً پنکھے، بلب کام نہیں کر رہے ہوتے اور ان کی مرمت کے لیے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے جاتے۔ پاکستان میں ریلوے کا نظام بہت وسیع مگر کافی پرانا ہے اور جس نوعیت کی بحالی کی اسے ضرورت تھی وہ نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات میں سرِفہرست ریلوے ٹریک سے متعلقہ مسائل ہیں جبکہ رولنگ سٹاک (ریل کے انجن اور بوگیاں) اور ریلوے سگنل کا نظام بھی حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ان کے علاوہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ موجودہ ٹریکس کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ کمزور ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھی جاتی ہے اور ڈرائیوروں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ سی پیک کے تحت شروع ہونے والے بڑے منصوبے سے قطع نظر مرکزی ٹریک کی بحالی کے چھوٹے منصوبوں پر فی الفور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹریک کے حوالے سے سندھ کے سکھر ڈویژن میں صورتحال اچھی نہیں ہے، حالیہ حادثہ بھی اس کی حدود میں پیش آیا۔ریلوے میں رولنگ سٹاک یا اضافی انجنوں اور بوگیوں کا مسئلہ ہے تاہم انھیں ٹریک پر اسی وقت لایا جاتا ہے جب ریلوے کے مختلف شعبے ان کے قابل استعمال ہونے کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ریلوے حادثات نے اس پرلطف سواری کو غیر محفوظ اور غیر یقینی پن کا شکار بنا دیا ہے۔ 2019ء میں ٹرین میں آتشزدگی سے 75افراد جل گئے۔ پھر صادق آباد میں ٹرین پٹڑی سے اترنے سے کئی مسافر جاں بحق ہوئے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ ن کے دور میں گو وزیر ریلوے سعد رفیق نے محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن وہ بنا پھاٹک مقامات پر مسلسل حادثات‘ پٹڑی سے بوگیاں اترنے کے واقعات اور دیگر خرابیوں کے باعث تنقید کی زد میں رہے۔2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دور میں یہ محکمہ اور ٹرینوں کے معاملات انتہائی بری حالت کو پہنچ چکے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت نے ریلوے کا نظام بہتر بنانے کے لئے مال بردار گاڑیوں کی تعداد بڑھانے‘ نظام الاوقات کی پابندی کرانے اور بوگیوں کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی ہے تاہم حفاظتی نظام سے متعلق بگاڑ کو پہلی ترجیح کے طور پر توجہ نہیں مل سکی۔ ٹرین حادثات میں مسافروں کی جانیں جا رہی ہیں‘ سرکاری محکمہ ہوتے ہوئے ہر حادثے کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کی مالی مدد کے ساتھ ان خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ دی جائے جو ریلوے کو غیر محفوظ اور غیر منافع بخش بنا رہی ہیں۔