آج پاکستانی قوم اپنے اس حق کا استعمال کررہی ہے جس کے لئے کشمیر کے عوام ستر سال سے ترس رہے ہیں۔ یعنی آزادانہ حق رائے دہی۔ جس وقت یہ کالم شائع ہوگا آج کے دن کا کیا دھرا سامنے آچکا ہوگا۔ انتخابی نتائج آرہے ہونگے اور کون کہاں سبقت لے جارہا ہے یہ بھی صورتحال بھی واضح ہورہی ہوگی۔گو نون لیگ اور اس کی حواری پارٹیاں جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا راگ الاپ رہی ہیں، پہلے ہی ذہنی شکست تسلیم کرچکی ہیں پھر بھی رسمی کارروائی تو جاری ہے۔رسمی کارروائی پہ مجھے لندن میں بیٹھا ایک ہرزہ گو یاد آگیا جو کہا کرتا تھا کہ کراچی میں انتخابات تو بس رسم ہیں، فیصلہ تو ہوچکاہے۔بات اس کی ٹھیک تھی، کراچی کے عوام بھی اس کے ساتھ تھے اور مخالف تھے ہی نہیں۔ کم سے کم ووٹر لسٹ میں نہیں تھے۔کراچی جو ہماری جائے پیدائش و خواری ہے،پہلی بار ووٹ ڈالنے کی بالی عمر آئی توشہر پہ دہشت کا راج تھا۔ ۔ ویسے تو سرشام فائرنگ اور دو چار لاشوں کا گرنا معمول کی بات تھی لیکن الیکشن سے چند روز پہلے سارے شہر میں نامعلوم افراد کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ سڑکوں پہ لاوارث لاشوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی تھی۔ ساتھ جلاو گھیراو کا تڑکا بھی لگا دیا جاتا ۔ پہلے پہل جماعت اسلامی کے کارکنان کی شامت آیا کرتی تھی۔کئی جان سے بھی گئے۔ کچھ اغوا ہوئے اور تشدد کے بعد چھوڑ دیے گئے۔پھر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ پہلے جمعیت کے کارکنان نے تعلیمی اداروں سے پر سمیٹے جہاں ہم نے خود انہیں مصلحت اور حکمت کے تحت باطل کا دم دبا کے بھاگتے ہوئے مقابلہ کرتے دیکھا۔ باطل نے بہت عرصے حق کی بدمعاشی برداشت کی تھی۔ تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف کلچر اسی حق کی دین تھی۔ لندن والا بھائی ایسے ہی قائد تحریک نہیں بن گیا تھا۔اب ہر طرف حق پرستی کا دور تھا۔ حق مجبور ہوگیا تھا۔ جمعیت کے کارکنان حقیقت میں لاوارث ہوگئے تھے۔ نہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ،تنظیم اساتذہ سے تعلق رکھنے والے استاد ان کی حمایت میں کھڑے ہوتے تھے نہ جماعت اسلامی کے مقامی قائدین ۔احتجاج بس اخباری بیانات تک محدود ہوگیا تھا۔ جمعیت کے ان کارکنان کا جو حق پرستوں کے تشدد کا شکار ہوکر نوکریوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے تھے ، کوئی پرسان حال نہ ہوتا تھا۔ ہاں شہید اور زخمی کارکنان کی لہولہان تصویریں بڑے بڑے پوسٹروں کی شکل میں شہر کی دیواروں کی زینت بن جاتی تھیں جن پہ ترقی پسند فیض اور سیکولر ساحر لدھیانوی کے اشعار لکھے ہوتے تھے۔ جماعت اسلامی کراچی کا مرکزی دفتر جو ادارہ نور حق کہلاتا ہے اور جہاں پروفیسر غفور مرحوم بیٹھا کرتے تھے ، مقامی قائدین زخمی کارکنوں کو اللہ پہ بھروسہ رکھنے کی تلقین اور صبر کی تاکید کرکے واپس بھیج دیتے تھے اور شہدا کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں درج کروا کے اپنے اپنے گھروں اور دفتروںمیں محفوظ اسلامی انقلاب لایا کرتے تھے۔ اللہ کی عدالت میں درج مقدمے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ نہ مقدمے کی پیروی کرنے کا جھنجھٹ تھا نہ گواہ اور استغاثہ کا جنجال۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ہاں وہ انتخابات میں اپنے امیدوار برابر کھڑے کرتے تھے کہ آخر وہ باطل کے سامنے مکمل سپر کیسے ڈال دیتے۔ انتخابی منظر نامے پہ وہ بس برائے نام ہی نظر آتے۔الیکشن والے دن ان کا امیدوار پولنگ اسٹیشنوں پہ نظر آجاتا تو بڑی بات تھی۔خیر کالم در مدح جماعت اسلامی لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن سچ تو یہی ہے کہ ایم کیو ایم کا مقابل کوئی نہ تھا۔دہشت ہی اتنی تھی۔ پھر اس دہشت کو عوامی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس عوامی حمایت کی وجوہات بہت گہری ہیں۔ انہیں یکسر نظر انداز کرنا اور مکمل تسلیم کرلینا ہی غلطی ہے۔لندن میں خودساختہ جلا وطن نے کراچی کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھیں اور جیسے چاہا ہلاتا رہا۔ مرکز میں حکومت پیپلز پارٹی کی آئی یا مسلم لیگ کی ، چودہ نشستوں کی بھیک کے بدلے ہر جائز ناجائز مطالبہ مانا جاتا رہا۔ ایک ایک سیٹ کروڑوں میں فروخت ہوئی۔ پان کی دکان پہ بیٹھا چیمبر لوڈ کرنے والا پہلے ایم پی اے بنا پھر کراچی کے مہنگے ترین اپارٹمنٹس کریک وسٹا میں چار فلیٹوں کا راتوں رات مالک بن گیا۔ یہ بڑے چلتر پن کی بات تھی کیونکہ بھتہ تو لندن چلا جاتا تھا۔ بھتے میں ڈنڈی مارنا آسان کام نہیں تھا لیکن دیگ کے پاس بیٹھا بوٹیاں تو چرا ہی لیتا ہے۔بات الیکشن کی ہورہی تھی۔ والدہ محترمہ ایک سرکاری اسکول میں پرنسپل تھیں۔الیکشن میں ان کی پریزائڈنگ افسر کی ڈیوٹی لگا کرتی تھی۔ الیکشن سے کئی دن پہلے ہی دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ پھر الیکشن کی چاند رات کوڈی سی آفس سے سرکاری گاڑی گھر آیا کرتی جو سخت سیکوریٹی میں انہیں ساتھ لے جاتی۔ وہاں سے انتخابی سازو سامان پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچایا جاتا۔ اس کے بعد سارا انتخابی عمل مکمل طور پہ متحدہ کے کارکنان کے حوالے ہوجاتا۔اندر سیکٹر انچارج کھلے عام اسلحہ لیے گھومتے اور عوام کو ووٹ ڈالنے کی اہمیت بتاتے۔ ایک کونے میں پولنگ افسران نو خانے والی مہر اور بیلٹ پیپروں کاڈھیر لئے بیٹھے ہوتے اور پتنگ کے نشان پہ چھاپہ خانہ کھول دیتے۔پریزائیڈنگ افسر کی مجال تھی کہ چوں بھی کرتا یا کرتی۔ایک بار والدہ نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ آپ لوگوں نے تو جیتنا ہی ہے پھر اس تکلف کی کیا ضرورت ہے تو جواب ملا کہ مارجن ہر حال میں پچھلی بار سے زیادہ دکھانا ہے۔ہماری گاڑی ایک دن پہلے شریر لونڈوں کے ہاتھ لگ چکی تھی۔والدہ کو گاڑی سے اتار کر کار نذر آتش کی جانے والی تھی کہ پرلے سرے سے ایک لونڈا دوڑتا ہوا آیا اور وہ سیکٹر انچارج تھا اور والدہ کا شاگرد رشید رہ چکا تھا ۔اس نے والدہ کو پہچان کر کہا۔ مس آپ یہاں کیا کررہی ہیں۔ والدہ نے جواب دیا۔گاڑی جلوا رہی ہوں۔ اس نے پٹرول کی کین والے حق پرست بھائی کو ایک تھپڑ رسید کرکے کہا۔ابے پاغل ہوا ہے کیا۔دیکھتا نہیں اپنی مس ہیں۔ چل مس کو گھر پہنچا۔ یہ منظر دیکھ کر والدہ کی آنکھوں میں فخرا ور تشکر کے آنسو آگئے۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ اب الیکشن والے دن بھی شاگرد رشید استاد گرامی کے حق میں کھڑا ہوجائے اس کی تو نہیں ہورہی تھی۔ اس لئے ٹھپے لگتے رہے۔دو بار میرا اپنا ووٹ کوئی بھائی ڈال گئے۔مجھ سے پوچھا بھی نہیں۔یہ سب حربے نہ ہوتے تب بھی ایم کیو ایم کا طوطی لندن سے کراچی تک کفن پھاڑ کر بول رہا تھا۔حق پرستی پہ زوال اس وقت آیا جب طاقت کے نشے میں چور جلا وطن نے لڑکھڑاتی آواز میںپاکستان مردہ باد کے نعرے لگوادیے۔یہ پہلی بار نہیں تھا لیکن اس بار سرخ لکیر عبور ہوگئی تھی۔ اس سے قبل عمران خان کراچی میں دو بہت بڑے جلسے کرچکے تھے اور کراچی کے عوام کا موڈ خاصی حد تک بدل چکا تھا۔ ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو تیس برسوں کی گھٹن، تشدد اور خوف سے تنگ آچکے تھے۔ اب خوف کی جگہ اکتاہٹ اور بے زاری نے لے لی تھی۔ مذہبی جماعتوں کے منافقانہ اور بزدلانہ کردار سے مایوس عوام کو عمران خان کے سوا کون متبادل نظر آتا جس نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ اس کے کارکن کو کراچی میں ہاتھ لگایا گیا تو اچھا نہ ہوگا۔ ایک کارکن کی شہادت کے خلاف اس نے اسی دنیا کے اسی شہر کے ایک تھانے میں ایف آئی آر کٹوا رکھی تھی۔اللہ کی عدالت کو اس ایف آئی آر کی ضرورت نہ تھی لیکن اسے اتمام حجت درکار تھی۔اکیس اگست کی لندن سے ہونے والی تقریر نے اس پہ مہر تصدیق ثبت کردی۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آچکی تھی۔ کراچی کی بلا شرکت غیرے عنان گیر پارٹی ایم کیو ایم جس کا بانی لندن میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے کی بات کرتا تھا، بھارت میں تقسیم ہند کو تاریخی غلطی قرار دیتا تھا، آج مسخرے پن سے بھرپور اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پہ صرف یہ پیغام دینے کے لئے پھیلانے پہ مجبور ہے کہ وہ زندہ ہی نہیں ہٹا کٹا بھی ہے ۔ اس کی پارٹی کے اتنے ہی ٹکڑے ہوچکے ہیں جتنے کبھی اس کے یونٹ ہوتے تھے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ آج کوئی لندن سے اڈیالہ جیل تک کا سفر اسی نقش قدم پہ چل کر پورا کر چکا ۔اس نے اپنے ووٹر کو فوج (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) اور عدلیہ کے خلاف اسی طرح بھڑکانے کی کوشش کی جیسے کبھی کوئی کیا کرتا تھا۔ آج فوج کی نگرانی میں الیکشن کروانے پہ آئینی شقیں ڈھونڈنے والے بھول گئے ہیں کہ کراچی میں ہمیشہ ہی فوج کی نگرانی میں الیکشن ہوتے رہے۔ گزشتہ الیکشن وہ آخری الیکشن تھے جس میں ایم کیو ایم نے روایتی حربے استعمال کئے اور پولنگ کے دوران ہی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کراچی نے پولنگ کا بائکاٹ کردیا۔ آج دھاندلی اور پری پول رگنگ کا شور مچانے والوں نے کبھی کراچی میں ہونے والی دھاندلیوں اور بدمعاشیوں پہ نہ صرف آواز نہیں اٹھائی بلکہ نائن زیرو پہ حاضری دے کر چودہ سیٹوں کی بھیک مانگتے رہے۔کیا تماشہ تھا، کیا تماشہ ہے۔