افغانستان کو جرگوں کا ملک کہاجاتاہے کیونکہ یہ افغانوں کے ہاں اس جمہوری عمل کانام ہے جس کے ذریعے افغان کئی صدیوں سے اپنے سیاسی ، سماجی اور ریاستی معاملات حل کرتے آئے ہیں۔ بنیادی طور پرجرگہ دو طرح کے ہوتے ہیں،لوکل اور زیریںسطح کے معاملات کونمٹانے کیلئے چھوٹاجرگہ جبکہ قومی سطح کے مسائل کے حل کیلئے ’’ لویہ جرگہ‘‘(گرینڈجرگہ) بلایاجاتاہے۔لویہ جرگہ میںبہت وسیع پیمانے پر افغان وطن کے علماء ، سیاستدان ، قبائلی عمائدین اور دانشوراں ایک معاملے کا سنجیدہ اور پائیدار حل نکالنے کیلئے اس میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی تجاویز دیتے ہیں۔ افغانستان میں یوں تو لویہ جرگہ بلانے کارواج پہلے بھی تھاتاہم معلوم حکومتی اسنادکے مطابق ملک میں پہلارسمی لویہ جرگہ احمد شاہ ابدالی نے 1747 ء میں اس وقت بلایاتھاجب وہ نادرشاہ افشار کے قتل کے بعد کندھارلوٹ آئے تھے۔ کہاجاتاہے کہ یہ جرگہ نو دنوں تک جاری رہااور اس کو کئی حوالوں سے تاریخی لویہ جرگہ کہاجاتاہے کیونکہ ایک تو اس جرگے کی وساطت سے احمد شاہ ابدالی افغانستان کے حکمران منتخب ہوئے تھے ، دوسرا یہ کہ اس جرگے میں باہمی مشاورت سے افغانستان ایک آزادریاست کے طور پربھی ڈکلیئر ہواتھا ۔پہلی افغان جنگ First Anglo-Afghan war))کے زمانے 1841ء میں بھی لویہ جرگہ کی ضرورت محسوس کرلی گئی تاکہ افغان قوم کو انگریزوں کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کیا جائے ۔اسی طرح امیرشیر علی خان نے 1865ء میں اپنی سلطنت کے خلاف اپنے باغی بھائیوں کے خلاف لائحہ عمل طے کرنے کیلئے لویہ جرگہ بلایا تھا۔ 1893 ء میں برطانیہ نے ہندوستان اور افغانستان کی حدبندی کیلئے ڈیورنڈنامی لائن کھینچی تواسی وقت کے افغان حکمران امیرعبدالرحمن خان نے انگریزوں کے اس فیصلے کی عوامی تائید حاصل کرنے کیلئے اسی سال لویہ جرگہ بلایاتھا۔1914ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس وقت امیر حبیب اللہ خان افغانستان کے حکمران تھے۔جرمنی اور ترکی کے ایک وفدافغانستان آکرافغان حکومت سے انگریزوں کے خلاف لڑنے کی درخواست کی ۔ امیر حبیب اللہ نے لویہ جرگہ بلاکر لوگوں کی رائے لی جس میں بالآخر افغانوں نے اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کافیصلہ کرلیا۔۔تقسیم ہند کے اگلے سال ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر جب پاکستان اور افغانستان کے بیچ تعلقات خراب تو اس دوران لویہ جرگہ نے انگریزوں اور افغانستا ن کے درمیان 1893 کا معاہدہ لغو قرار دیا بلکہ دوسری انگریز۔ افغان جنگ کے دوران ہونیوالے 1905 کا معاہدہ اور 1919کے راوالپنڈی معاہدے کو بھی لایعنی قرار دیا۔ اسی طرح اپنے دورسلطنت 1919-1929)) کے دوران انقلابی حکمران غازی امان اللہ خان کی طرف سے ملک میں نئے اصلاحات کے نفاذ کیلئے بھی لویہ جرگہ کاسہارا لیاگیا۔بعدمیں نادرخان نے 1930میں، محمد ظاہر شاہ نے 1965 میں ، سردار محمد داود خان نے 1977 میں، ببرک کارمل نے 1971 میں حسب ضرورت وقتاًفوقتاً لویہ جرگہ بلایا۔ اسی طرح 1987میں لویہ جرگہ ہی کے فیصلے کی روشنی میں افغانستان کا اساسی قانون تصویب ہونے کیساتھ ساتھ ڈاکٹرنجیب اللہ افغانستان کے صدر بھی منتخب ہوئے۔نائن الیون واقعے کے بعدبُون کانفرنس کی روشنی میں بھی ایک عبوری حکومت کے قیام اور صدر کے انتخاب کیلئے ہنگامی طور پر لویہ جرگہ بلایاگیاجس کے نتیجے میں بالآخرحامدکرزئی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے۔ صدر حامد کرزئی نے جب 2010 میں جب امن پروگرام شروع کیاتو عوامی تائید حاصل کروانے کیلئے انہوں نے لویہ جرگہ کنڈکٹ کیاجس کو بہت سے لوگوں نے فرمائشی اور غیرقانونی لویہ جرگہ سے تعبیر کیا۔ سب سے آخری لویہ جرگہ چندروز پہلے 7 اگست کوافغا ن صدر اشرف غنی حکومت نے بلایاتاکہ طالبان کے چار سو قیدیوں کی رہائی کے مسئلے کوباہمی مشاورت سے نمٹایا جا سکے۔ 7 سے 9اگست تک جاری رہنے والے اس سہ روزہ لویہ جرگے میں لگ بھگ تین ہزار چار سو مندوبین نے شرکت کی ۔جرگے کے اختتام پرباقاعدہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں شرکاء نے افغان حکومت اور افغان طالبان سے پچیس شقوں پر عمل درآمدکروانے کی سفارش کی ہے ۔مثلا جرگے نے باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کی تائید کی ہے اور ساتھ ساتھ دونوں فریقوں سے فوری طور پرسیزفائریقینی بنانے کا مطالبہ کیاہے۔اعلامیے میں افغانستان کے دونوں فریقوں کو باہمی مذاکرات سے حل کروانے، ملک میں خواتیں کو انسانی اورسیاسی حقوق فراہم کرنے، مریکہ سے اپنے وعدوں کو ایفاکرنے اوربین الاقوامی برادری سے امن کے عمل میں سہولت کار کا کردار اداکرنے اور ہمسایہ ممالک سے افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ جرگے نے اساسی قانو ن میں بوقت ضرورت عدلیہ کے ذریعے ترامیم کروانے، حکومت سے جرگے کی مشاورت سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور بین الافغان مذاکرات کو افغانستان میں ہی منعقد کروانے کی تجاویز دی ہیں ۔ میں سمجھتاہوں کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے لویہ جرگہ منعقد کرکے حکومت نے ایک بہترین جمہوری طریقے کا انتخاب کیاہے۔ مثلاً طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو لویہ جرگہ اور عوام کے سپرد کرکے حکومت نے ایک طرف ان افغان خاندانوں کے تحفظات سے بھی خودکو بری الذمہ کردیا جن کے پیارے مذکورہ قیدیوں کی طرف سے ہلاک ہوئے ہیں یا مالی نقصانات اٹھائے ہیں جبکہ دوسری طرف اس جرگے کے ذریعے حکومت یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ مستقبل میں بھی ملک کے پیچیدہ مسائل کو لویہ جرگہ ہی کے فلیٹ فارم سے نمٹانا ناگزیر ہے۔لویہ جرگہ ہی وہ عوامی فلیٹ فارم ہے جس کے فیصلوں اور تجاویز کا اگر کوئی فریق بھی مخالفت کریگا تو اس کا مطلب پوری افغان قوم کی رائے کی مخالفت تصور کی جائیگی۔ یہ جرگے ہی کا کمال ہے کہ طالبان کے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کا حکم نامہ صادر کیا گیا اور فریقین ایک ہفتے کے اندراندربین الافغان ڈائیلاگ شروع کرنے پر رضامندہوئے ہیں۔ جرگوں کے اس ملک میں جرگے کے جمہوری عمل کواگر مستقبل میں بھی سنجیدہ لیا گیا تو یقین ہے کہ افغانستان اس خطے کا پرامن اور خوشحال ملک بن جائیگا ۔ خدا کرے کہ عنقریب شروع ہونیوالے بین الافغان مذاکرات کے نتائج حوصلہ افزاہوں گے۔